Premium Content

“لوگ، جوگ ،روگ اور سموگ“

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:      ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

پہلے کسی کو کوئی روگ لگتا تھا  تو  وہ جو گ لےلیتا تھا۔ کبھی کبھی حاکم وقت بھی کسی کو جوگ دے دیتا تھا تاکہ سندر رہےاور بوقت ضرورت انسانیت کے کام آئے۔ اکثر اوقات معاشرتی جبر بھی حساس انسانوں کو جوگ لینے پر مجبور کر دیتا  تھا۔ کچھ لوگ شوق سے بھی جوگی بن جاتے تھے۔ ایسے جوگیوں پر فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ گانے لکھے جاتے تھے۔ کچھ لوگ شوق سے روگی بھی بن جاتے تھے۔ اگر  کسی کو عشق کا روگ لگ جاتا تھا تو سمجھا یہ جاتا تھا کہ جو لوگ لینے سے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ کسی کے جوگ لینے سے کسی کے معاملات بہتر ہو بھی جاتے تھے۔  اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کہ عشق کا روگ خود لگتا تھا یا لگانا پڑتا تھا۔ عشق کے روگی اکثر اوقات جوگی بن جاتے تھے۔   اُن کی شہرت دور دور تک پھیل جاتی تھی۔  چوک اور شہر اُن کے نام سے منسوب کر دیئے جاتے تھے۔ ساہیوال میں بھی ایک ”جوگی چوک “ہے۔ جوگی چوک آج کل”سموگی “چوک بھی ہے۔ آج کل عشق  کا آزار زیادہ خطرناک ہے یا سموگ کا  روگ زیادہ جان لیوا ہے۔

اس بابت تحقیق ابھی جاری ہے۔ تاحال سموگ کا وار بھاری ہے۔ ہر طرف سموگ کی مارا ماری ہے۔  ”سموگی “ کی قسمت نری خواری ہے۔ جو لوگ ساری زندگی عشق کے روگ سے بچے رہے ہیں، وہ بھی سموگ کی زد میں ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم صرف جوگ سے سموگ تک کا سفر کر سکے ہیں۔ ہمارے بزرگ دل کو روگ لگا کر جوگ لیتے تھےاور مزے سے عمر جنگلوں میں گزار دیتے تھے۔ کئی بزرگوں کےجوگ لینے سے علاقے والوں کے بھی مزے ہو جاتے تھے۔اب بندہ ہر روگ سے بچ سکتا ہے۔ سموگ سے بچنا تقریباً نا ممکن ہے۔ بھلے بندہ جوگی نہ بنے، روگی نہ بنے، سال میں ایک دفعہ ”سموگی “ ضرور بنتا ہے۔ زندہ بچ جائے تو اگلے سال یہ رتبہ پھر حاصل ہو جاتا ہے۔ گئے وقتوں میں ایک شاعر نے اپنے محبوب کے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے یہ عذر پیش کیا تھا کہ شہر میں لوگ بہت تھے تو  گاؤں میں بھی روگ کم نہیں تھے۔ ہمارے دُ کھی شاعر جب  بھی اپنے محبوب کا سوگ منانے کی پلاننگ کرنے لگتا تو حصولِ روزگار کا غم اُسے گھیر لیتا ۔ شاعر کی غربت ہمیشہ محبت کے آڑے آتی رہی۔ اُس کے دل کو روگ لگ گیا۔ آج کل ہمارے گھر بیٹریوں سے، شہر فیکٹریوں سے اور فیکٹری مالکان کے دفتر پرسنل سیکرٹریوں سے بھرے پڑے ہیں۔ غریب آدمی کے دل کو روگ لگ گیا ہے تو اُس کے پھیپھڑوں کو سموگ لگ گیا ہے۔ عشق کے ایک روگی کو یہ اُلجھن لاحق تھی کہ وہ دل کا ماتم کرے یا اپنے جگر کو روئے۔ ”سموگی “ اس طرح کی الجھنوں سے آزاد ہوتا ہے۔ پھیپھڑوں اور دل میں ”تو چل میں بھی آیا “ کا رشتہ ہے۔ ایک متاثر ہو جائے تو دوسرے کا بچنا تقریباً ناممکن ہے۔ صحت مند دل اور صحت مند پھیپھڑے زندگی کا دوسرا نام ہیں۔

ایک صاحب کا کہنا ہے پہلے ہمارے ہاں عاشقوں کی کثرت ہوتی تھی اس لیے دل کا روگ زیادہ تھا۔ اب فاسقوں کی کثرت ہے اس لیے سموگ زیادہ ہے۔ عشق کا روگ جوگ لینے سے بہتر ہو جاتا تھا۔ سوشل میڈیا آنے کے بعد جوگ تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔ جدید دور میں عشق سے تو بچا جا سکتا ہے مگر سموگ سے بچنا تقریباً  ناممکن ہے۔ ایک شاعر کے بقول عاشقی کا انجام کھانسی ، نزلہ اور زکام ہے۔ سموگ میں بھی ابتدائی طور پر یہی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ بارش عاشقی کے روگ کو بڑھا دیتی  ہے۔ سموگ کو گھٹا دیتی ہے۔ کچھ لوگوں کی طبیعت میں سموگ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے تو کچھ لوگوں کی طبیعت میں جوگ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ سموگ کا باعث بننے والوں کو جوگ دے دینا چاہیے۔

ایک صاحب اپنے نا فرمان بیٹے کو کہہ رہے تھے”جہاں رہوخوش رہو۔ اگر ملک سے باہر رہو گے تو یہاں ہم بھی خوش رہیں گے“۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے شہروں کی آب و ہوا مثالی ہوا کرتی تھی۔ اب آب خراب ہو چکا ہے۔ ہوا کی ہوااُکھڑ چکی ہے۔ آب و ہوا سزا بن چکی ہے۔ پہلے شہروں سے باہر ویرانے ہوتے تھے۔ اب شہر کے اندر لوگ پل بھر میں ویران ہو جاتے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ جس نے فلاں شہر دیکھا نہیں وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ اب کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی فلاں شہر گیا نہیں توبیمار کیسے ہو گیا؟ کبھی ایک شاعر کو اُداسی کا مرض لاحق ہو جاتا تھا کیوں کہ اُس کی شام دھواں دھواں تھی۔ اب ہرگام دھواں ہی دھواں ہے۔ سموگ کی وجہ سے شہر موت کا کنواں بنتے جا رہے ہیں جو کسی بھی وقت کسی کی بھی جان لے سکتے ہیں۔ پریم روگی چلا چلا کر کہتے تھے کہ وہ پریم روگی ہیں اُن کا علاج کروایا جائے۔ سموگی تو چلا بھی نہیں سکتا۔ اپنا حال بتا بھی نہیں سکتا اور چھپا بھی نہیں سکتا۔ پھیپھڑوں میں دم نہیں رہتا اور آنکھ ہر دم پُرنم رہتی ہے۔ الٰہامی کتاب یہ بشارت دیتی ہے جس نے ایک انسان کی جان بچائی اُس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ ہمارا دین یہ وعید بھی سناتا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ جو لوگ دانستہ، نادانستہ سموگ پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ لوگوں کی دنیا اور اپنی آخرت تباہ کر رہے ہیں۔ اگر کسی کے اردگرد رہنے والوں کی دنیا تباہ ہو رہی ہے تو وہ خود کتنی دیر محفوظ رہ سکتا ہے؟۔

میں آج زوپہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos