تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم
مڈل کلاس وہ طبقہ ہے جو ہمیشہ ایک ہی وقت میں دو مختلف جہتوں میں پھنسے رہتا ہے۔ اس کا ایک قدم روایات، مذہب اور اقدار کی دنیا میں ہوتا ہے، جبکہ دوسرا قدم ترقی پسند سوچ کی جانب بڑھنا چاہتا ہے۔ یہ لوگ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر ماضی کی چادر کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہی تضاد ان کے لیے ایک مسلسل تکلیف دہ مرحلہ ثابت ہوتا ہے، جس کے ساتھ وہ اپنی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کا بنیادی نظریہ قدامت پسندی پر مشتمل ہوتا ہے، جو اکثر ترقی پسند رجحانات کے خلاف ہوتا ہے، یعنی ان کی دو کشتیاں مخالف سمتوں میں چلتی ہیں۔ اب خود سوچیں کہ وہ شخص جو دونوں کشتیوں پر سوار ہو، اس کی کیا حالت ہوگی؟ یہ طبقہ مالی خوشحالی چاہتا ہے لیکن روایات اور رسم و رواج بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ حالانکہ مالی خوشحالی نئی سوچ، مختلف ثقافت اور طرز زندگی کے ساتھ آتی ہے، مگر وہ پھر بھی پرانی سوچ پر قائم رہتے ہیں۔
بچپن میں مڈل کلاس بچوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتی ہے۔ کھیل کود پر پابندیاں لگا کر صرف پڑھائی پر زور دیا جاتا ہے تاکہ بچے کا مستقبل روشن ہو، لیکن یہ نہیں سمجھا جاتا کہ جس کا حال خراب ہو، اس کا مستقبل کیسا بہتر ہو سکتا ہے؟ بچوں کو اکثر یہ شعر سنایا جاتا ہے:
“پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب
کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب”
اس طرح بچپن بچوں کا ہدایات کی گٹھڑی سنبھالے گزر جاتا ہے اور اس کا تخیل ماند پڑ جاتا ہے اس لیے بچے بڑے ہو کر کبھی بھی نواب نہیں بنتے مگر کلرک بھرتی ہو جاتے ہیں۔
مڈل کلاس اپنی اولاد کی شادی اچھے خاندانوں میں کرنا چاہتی ہے جن کی تعریف عام طور پر زیادہ دولت رکھنے والے مگر ذہنی طور پر قدامت پسند لوگ ہوتے ہیں۔ لڑکی کھانا بنانے میں ماہر ہو، کپڑے برانڈڈ پہنے، شرم و حیا کی پابند ہو لیکن فیشن کا بھی علم رکھتی ہو تاکہ خاندان کی عزت برقرار رہے۔ جام فرماتے ہیں کہ مڈل کلاس میں بہو چننا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اور شادی کے بعد اکثر وہی بہو تنقید کی زد میں آتی ہے۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ غلطی لڑکی میں ہے یا انتخاب کرنے والوں میں؟
مڈل کلاس کے چھوٹے چھوٹے خواب ہوتے ہیں جیسے چار کنال کا بنگلہ، جدید گاڑی، اور مہنگے تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعلیم۔ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں، اس کی پروا نہیں، خواب دیکھنے کی تو کوئی حد نہیں۔ مڈل کلاس اپنے خواب مہران کار لے کر، پانچ مرلے کا مکان بنا کر، انگریزی اسکول میں بچوں کو داخل کروا کر اور بھائی کی بیٹی کو بہو بنا کر پورے کرتی ہے۔
مڈل کلاس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اپنا نیا گھر اپنے پرانے محلے میں بناتی ہے جہاں بچپن گزرا ہوتا ہے۔ گلیوں میں وہی پرانی مہران کار دلہن کی طرح گھومتی ہے، محلے کے بچے پیچھا کرتے ہیں اور کتے چوہدری صاحب کی گاڑی پر بھونکتے ہیں۔ گھر کے باہر جلی حروف میں “چوہدری ولاز” کی تختی لگی ہوتی ہے۔ ہم نے مڈل کلاس کی چند خصوصیات بیان کی ہیں، جن میں سے شاید آپ ایک پر بھی یقین نہ کریں۔