مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی، امریکی و اسرائیلی حکمت عملی کی ناکامی بے نقاب

[post-views]
[post-views]

مدثر رضوان

مشرق وسطیٰ میں کئی روز کی خطرناک کشیدگی کے بعد اب حالات میں وقتی سکون محسوس ہو رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کروائی گئی جنگ بندی نے بظاہر تصادم کو روک دیا ہے، تاہم اس عارضی خاموشی کے پیچھے سنگین سوالات چھپے ہوئے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ امریکہ اور اسرائیل، ایران کے خلاف اپنی اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ایران کی جانب سے امریکی فضائی حملوں کے جواب میں قطر میں ایک اہم امریکی ایئربیس پر میزائل داغے گئے، لیکن یہ حملہ علامتی نوعیت کا تھا۔ چند گھنٹوں بعد ہی ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ جنگ بندی ہو چکی ہے، جس کی تصدیق ایران اور اسرائیل دونوں نے کر دی۔

مگر جنگ بندی کے فوراً بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ ایران نے معاہدہ توڑا ہے، جس پر ایران نے کہا کہ اس کے حملے جنگ بندی سے پہلے کیے گئے تھے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ “اب مزید بم نہ گراؤ”، لیکن اسرائیل نے اس کے باوجود حملہ کر دیا۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

یہ صورتحال ثابت کرتی ہے کہ اسرائیل ایک غیر مستحکم ریاست ہے جو معمولی بہانے سے بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور امریکہ اس پر اثر انداز ہونے سے قاصر ہے۔ ایران نے بھی اگرچہ جوابی کارروائی کی، لیکن اس کی شدت محدود رکھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران بھی تصادم کو مزید بڑھانا نہیں چاہتا۔

اگر امریکہ واقعی مشرق وسطیٰ میں امن چاہتا ہے تو اسے اسرائیل پر ہتھیاروں اور امداد کی ترسیل بند کرنا ہو گی۔ صرف سوشل میڈیا بیانات سے تل ابیب باز نہیں آئے گا۔

اسرائیلی حملوں میں اب تک 600 سے زائد ایرانی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، جب کہ غزہ میں 56,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اگر یہ جنگ بندی صرف وقتی چال نہیں، تو امریکہ اور اسرائیل کو اپنے اقدامات سے سنجیدگی کا ثبوت دینا ہو گا۔ ورنہ یہ جنگ بندی صرف ایک سانحے سے دوسرے سانحے کے درمیان کا وقفہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos