نظامِ عدل کی جیت، معظم سپرا کی کردار کشی کی کوشش ناکام

[post-views]
[post-views]

مدثر رضوان

عصرِ حاضر کے قانونی تناظر میں جہاں ریاستی مشینری میں شفافیت، قانون کی حکمرانی اور جوابدہی کو بنیادی اصول قرار دیا جا چکا ہے، وہاں سرکاری دفاتر میں خواتین کو ہراسانی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے وضع کردہ قوانین کا موثر اور منصفانہ استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔ تاہم، اگر ان قوانین کو ذاتی عناد، پیشہ ورانہ انتقام یا محکمانہ نظم و ضبط سے بچنے کے لیے بطور حربہ استعمال کیا جائے، تو اس سے نہ صرف ان قوانین کا مقصد فوت ہو جاتا ہے بلکہ یہ اقدام انصاف کے اصول، قانونی عمل داری اور انتظامی فیصلوں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

مذکورہ معاملہ میں، معظم اقبال سپرا، جو کہ پنجاب لینڈ ریکارڈز اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں، کے خلاف زیر دفعہ 2 قانون تحفظ از ہراسگی برائے خواتین بمقام کار 2010ء، ایک شکایت دائر کی گئی۔ شکایت کنندہ نے الزام عائد کیا کہ مذکورہ افسر نے ان سے دفتری معاملات میں غیر موزوں رویہ اختیار کیا۔ مزید برآں، ایک بعد ازاں دائر کی گئی ضمنی شکایت میں جنسی نوعیت کا الزام شامل کیا گیا۔ تاہم، اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ شکایت کے اندراج میں دو سال کا غیر معقول تاخیر موجود ہے، جو کہ دعوے کی ساکھ پر سوالیہ نشان بناتی ہے۔

قانونی تقاضوں کے مطابق، کسی بھی دعوے کی سماعت فطری انصاف کے اصولوں کے تابع ہوتی ہے، جس میں فریقِ مخالف کو مؤثر دفاع اور گواہی پر جرح کا موقع فراہم کرنا لازم ہوتا ہے۔ مذکورہ کیس میں، محتسب پنجاب کی طرف سے جو فیصلہ سنایا گیا، وہ اس وقت سنایا گیا جب اس مقدمے پر گورنر پنجاب کی جانب سے حکم امتناعی جاری تھا، جو کہ ایک واضح قانونی بے قاعدگی اور آئینی اختیارات کی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں، مدعا علیہ کو سماعت کا مکمل موقع نہ دینا اور غیر جانبدار گواہوں کی غیر موجودگی میں فیصلہ صادر کرنا فطری انصاف کے اصولوں کی صریح نفی ہے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

محتسب کی طرف سے اختیار کردہ گواہان، جنہیں مدعا علیہ ہی نے کرپشن اور مالی بے ضابطگی کے الزامات پر ملازمت سے سبکدوش کیا تھا، ان کی گواہی نہ صرف مشکوک ہے بلکہ قانونی نکتہ نظر سے ناقابلِ اعتماد بھی ہے، کیوں کہ ایسے گواہان مفاد یافتہ تصور کیے جاتے ہیں۔ اس قانونی اصول کے مطابق، کوئی بھی فیصلہ جس کی بنیاد جانبدار گواہوں کی شہادت پر ہو، شفاف قانونی معیار پر پورا نہیں اترتا۔

تحقیقی ریکارڈ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ شکایت کنندہ کے خلاف پیڈا ایکٹ 2006ء کے تحت باقاعدہ محکمانہ کارروائی کی گئی، جس میں متعدد مواقع پر ان کی صفائی کو سنا گیا اور ان کی اپیلیں مختلف فورمز سے مسترد ہوئیں۔ اس تسلسل سے یہ اخذ کرنا قرین قیاس ہے کہ موجودہ شکایت ایک انتقامی اقدام تھی، جس کا مقصد محض سابق افسر کی ساکھ کو مجروح کرنا تھا۔

قانون تحفظ از ہراسگی برائے خواتین بمقام کار 2010ء کی دفعہ 2 کے مطابق، “ورک پلیس ہراسمنٹ” کی تعریف نہایت واضح اور محدود ہے، جس میں کسی بھی الزام کی قانونی حیثیت کے لیے مخصوص اور معروضی شواہد اور حقائق کا ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ کیس میں شکایت عمومی، مبہم اور شواہد سے عاری تھی، جسے قانونی طور پر برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔

گورنر پنجاب نے اپنے تفصیلی فیصلے میں ان تمام قانونی خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح طور پر قرار دیا کہ محتسب کا فیصلہ قانونی اختیارات سے تجاوز، اصولِ انصاف کی خلاف ورزی، اور شواہد کی کمی پر مبنی تھا، لہٰذا اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اس اقدام سے نہ صرف مدعا علیہ کی ساکھ بحال ہوئی بلکہ قانونی اصولوں کی بالا دستی اور انتظامی انصاف کا دائرہ بھی مضبوط ہوا۔

قانونی اصولوں کی رو سے، اگر کسی شخص کے خلاف الزام اس انداز میں لگایا جائے کہ وہ شواہد سے عاری ہو، غیر جانبدار گواہی سے محروم ہو، اور اس کا مقصد صرف ساکھ کو نقصان پہنچانا ہو، تو ایسے الزام کو بدنیتی پر مبنی اور ناقابلِ اعتبار تصور کیا جاتا ہے۔ اس مقدمے کی نوعیت اور عدالتی فیصلے نے ایک اہم قانونی نظیر قائم کی ہے، کہ قوانین کو ان کے حقیقی مقصد سے ہٹ کر استعمال کرنا خود قانون کی روح کے خلاف ہے۔

اس تناظر میں، معظم اقبال سپرا کی بریت نہ صرف ایک انفرادی قانونی فتح ہے، بلکہ یہ اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ انصاف صرف سزا دینے کا نام نہیں بلکہ جھوٹے الزامات کے خلاف تحفظ فراہم کرنا بھی عدالتی نظام کا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔ ریاستی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس نوعیت کے معاملات میں قانون کی تشریح کرتے وقت معروضی معیار، ثبوت کی جانچ اور فریقین کے بنیادی حقوق کو مقدم رکھیں تاکہ انصاف کا عمل مکمل اور مستند ہو سکے۔

معظم اقبال سپرا ایک ایسا نام ہے جو دیانت، پیشہ ورانہ مہارت اور نظم و نسق کے حوالے سے سرکاری حلقوں میں ایک معتبر شناخت رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک سخت گیر اور اصول پسند منتظم کے طور پر جانے جاتے ہیں بلکہ ان کی پیشہ ورانہ خدمات ہمیشہ قانون، شفافیت اور میرٹ کے مطابق رہی ہیں۔ ان کے خلاف دائر کردہ ہراسگی کا مقدمہ، جو واضح طور پر بدنیتی اور انتقامی جذبے پر مبنی تھا، گورنر پنجاب کے تفصیلی اور مدلل فیصلے کے ذریعے کالعدم قرار دیا گیا۔ اس فیصلے نے نہ صرف ان کی بے گناہی کو ثابت کیا بلکہ ان کے کردار، ساکھ اور پیشہ ورانہ اصولوں کی سچائی کو بھی واضح کیا۔ یہ معاملہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ قانون کا غلط استعمال وقتی طور پر کسی کی ساکھ کو متاثر تو کر سکتا ہے، لیکن سچائی اور اصول آخرکار سرخرو ہوتے ہیں۔ معظم سپرا کی بریت ایک انفرادی کامیابی سے بڑھ کر اس بات کی علامت ہے کہ اصولوں پر قائم رہنے والے افسران کو جھوٹے الزامات کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos