Premium Content

معاشرے میں عدم برداشت

Print Friendly, PDF & Email

mubashar646@gmail.com مصنف: مبشر ندیم  سوشل ورکرہیں۔                 

  

مربوط اور منظم رہنے سے ہی معاشرے کی بقا اور فروغ ممکن ہے۔ ان اکائیوں میں سب سے  دواہم اکائیاں اتحاد اور اتفاق ہے اور اتحاد کے لیے سب سے اہم ضرورت ایک دوسرے کے نظریات کو برداشت کرنا ہے۔ یہ برداشت ہی قوموں کو مہذب بناتی ہے۔ جس معاشرے میں برداشت کی روایت دم توڑنے لگے وہاں فسادات پھوٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر یہ فسادات امن و امان کی مخدوش صورتحال کو جنم دیتے ہیں جو ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔بدقسمتی سے دنیا میں بالعموم اور ہمارے ہاں بالخصوص عدم برداشت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کی زبان سے کوئی اختلافی جملہ سننے تک کو تیار نہیں ہے۔ ہم خود فریبی اور خود ستائشی کی تمام حدوں کو پار کر چکے ہیں۔ کوئی انسان اگر ہم سے اختلاف کی جرات کر بیٹھتا ہے تو ہم اس کو برداشت کرنا تو دور، مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ہمیں صرف اپنا قبلہ درست لگتا ہے، باقی ساری دنیا ہمارے نزدیک جاہل ہے۔ یہ عدم برداشت آج ہمیں اس نہج پہ لے آئی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے اختلافات پر خون بہنے لگا ہے۔

عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ علم کی کمی اور دین سے دوری ہے۔ معاشرہ کی اکثریت خصوصاً نوجوان نسل دینی تعلیمات سےبے بہرہ ہے، اس لیے ان میں خود پسندی ، حسد، جلد بازی،اسراف اوردوسروں کی تحقیر سمیت لاتعداد روحانی امراض پیدا ہو رہے ہیں، جو عدم برداشت کی جڑ ہیں۔جبکہ دوسری طرف برداشت اوراحترام باہمی کو فروغ دینے والی اخلاق فاضلہ مثلاً صبرو شکر،حلم وبردباری، قناعت سے محروم رہتے ہیں۔

ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتیں عطا کر رکھی ہیں،کسی کو زندگی کے ایک پہلو میں مہارت حاصل ہوتی ہے ،تو کسی کو دوسرے پہلو میں۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں دوسروں سے مقابلہ کی فضا کچھ ایسے پروان چڑھی ہے کہ ہر ایک دوسرے سے اس کی صلاحیتیں جانے بنا اعلیٰ کارکردگی کا خواہاں ہوتا ہے،مثلاً بچوں سے ان کی دلچسپی جانے بنا،ہر مضمون میں اچھے گریڈز کا مطالبہ کیا جاتا ہےاور دوسرےبچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جس سے انسان غیر ضروری دماغی دباؤ کا شکا ر ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ عموماً عدم برداشت کی خطرناک بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔

روز بروز بڑھتی مہنگائی اور غربت بھی عدم برداشت کا ایک سبب ہے،جب کوئی باپ باوجود بارہ گھنٹے مزدوری کرنے کے، اپنے بچوں کو اچھے ادارے میں تعلیم تو کیا دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے پاتا یا کوئی بیٹا بستر پر پڑے اپنے بیمار والدین کے علاج کی طاقت نہیں پاتا،تو رفتہ رفتہ وہ برداشت کھو دیتا ہے۔اسی طرح مہنگائی کے اس دور میں شادی وغمی کے موقع پر بےجا رسوم ورواج بھی انسان کے برداشت کو ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

ایک ہی ملک میں یکساں ٹیکس دینے والےلوگوں میں جب کچھ لوگ سہولیات سے بھرپور زندگی گزارتے ہوں اور کچھ کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہوں، ایک طبقہ کے لیے قانون موم کی ناک اور دوسرے طبقہ کے لئے آہنی دیوار بن جاتا ہو،ایک گھنٹوں دفاتر کے باہرقطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتا ہو اور دوسرا گاڑی سے اتر کر سیدھا دفتر کے اندر پہنچ کر منٹوں میں فارغ ہوتا ہو، تو انسان کے اندر گھٹن، بے چینی اور نفرت پیدا ہوتی ہے اور روز مرہ کی بنیاد پر ایسے واقعات اس کا برداشت ختم کر دیتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر اور دنیا کے مقابلے میں اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھو ،تاکہ اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر معلوم ہو اور اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔لیکن یہاں سب کچھ اُلٹا چلتا ہے ،ہر کوئی اپنی موجودہ حالت سے غیر مطمئن اور دوسروں کی نعمتوں کا آرزو مند ہوتا ہے اور جب ہر طرح کےجائز و ناجائز وسائل بروئے کار لا کر بھی دوسرے کی طرح نہیں بن پاتا ،تو پھر مختلف نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر عدم برداشت کا شکار ہو جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں نفسیاتی مسائل بدرجہ اتم موجود ہیں جن کو سرے سے بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا۔

پوری دنیا میں نفسیاتی امراض کے شکار لوگ ماہرین نفسیات سے رجوع کرتے ہیں ،لیکن ہمارے ہاں ماہرین نفسیات سے علاج کرانا ایک قسم کا عیب سمجھا جاتا ہے اور ایسے مریض کو گویا پاگل تصور کر لیا جاتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ نفسیاتی امراض کا بروقت علاج نہیں کیا جاتا ، ۔لہٰذا یہی امراض انسان کی برداشت چھین لیتے ہیں اور ہر چھوٹی بڑی بات پر حد سے زیادہ رد عمل دیتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ معاشرے میں بڑھتے عدمِ برداشت کے اثرات صرف فرد تک محدود نہیں رہتے ،بلکہ پورے معاشرے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ذیل کے سطور میں اعداد و شمار کی روشنی میں عدم ِبرداشت کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات ازدواجی زندگی کی پائیداری کے لیے نہایت ضروری ہیں ۔ اس رشتے کو دوام بخشنے کے لیے برداشت آکسیجن کا کام کرتی ہے،کیونکہ جب کسی ایک فریق کی طرف سے عدم برداشت کا مظاہرہ کیاجاتا ہے، تو اس رشتہ کو برقرار رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہمارےمعاشرے میں عدم برداشت کی وبا مکمل طور پر پھیل چکی ہے،لہٰذا خاندانی زندگی پر اس کے بُرے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح ۶۰ فیصد تک پہنچ گئی ہے،حالانکہ۷۰ کی دہائی میں یہی شرح ۱۳ فیصد تھی، جبکہ پچھلے سال صرف سندھ میں خلع کے مقدمات میں ۷۰۰ فیصد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ایک مشرقی اسلامی معاشرے میں خاندانی زندگی کے لیے یہ اعداد و شمار موت سے کم نہیں ۔

دنیاوی زندگی میں کسی بھی انسان کی حالت یکساں نہیں رہتی بلکہ اس پر مختلف حالات آتے رہتے ہیں۔ کبھی انسان راحت و آرام میں گھری زندگی گزارتا ہے ، تو کبھی اس کو سکون و اطمینان کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں آتا ۔ گردش ایام میں مزید نقصان اور مسائل سے بچنے کے لیے انسان کے پاس واحد طریقہ برداشت کا ہوتا ہے، جس انسان کی قوت برداشت جتنی زیادہ ہوگی ،اتنی ہی آسانی سے وہ سخت حالات سے نکلے گا،لیکن اگر کوئی قوت برداشت سے محروم ہوتا ہے تو دوسروں کے ساتھ خود اپنے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے،جس کی بدترین شکل خود کشی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹہ میں خود کشی کا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے، اس حساب سے سالانہ یہ تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہے۔ خود کشی کی تباہی صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پورے خاندان کو تباہ کرتی ہے،لہٰذا دیکھا جائے تو عدم برداشت سالانہ ہزاروں خاندانوں کا چین و سکون چھین لیتا ہے۔

معاشرہ مختلف الخیال افراد کے مجموعےکا نام ہے۔ لہٰذا کسی بھی معاشرہ کے امن وسکون کے لیے رواداری اور احترام ، باہمی نہایت ضروری ہوتی ہے۔لیکن اگر کسی معاشرے میں دوسرے فرد کے نظریہ اور اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا ،تو اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ ایسے معاشرہ میں امن و مان کی صورتحال دگرگوں رہتی ہے اور ہر وقت جھگڑے، قتل و فساد کا ماحول ہوتا ہے۔پاکستان ادارہِ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال قتل و اقدام قتل کے اوسطاً ۲۰ ہزار واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدم برداشت نے ہمارے معاشرے کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔عدم برداشت کا حل

معاشرے میں عدم برداشت کی وجوہات اور اس کے خطرناک اثرات پر نظر ڈالنے کے بعد ضروری ہے کہ اس کے حل کےلیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ ذیل میں اس حوالے سے چند تجاویز ذکر کی جائیں گی:

معاشرے میں عدمِ برداشت کے سدِباب کے لئے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے مدراس میں تعلیمی نصاب سرکاری طور پر دیا جانا چاہیے اور ان مدارس کی رجسٹریشن ہونی چاہیے اور بچوں کی بھی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ بچوں کو درس نظامی کے ساتھ ساتھ دنیاوی اور سائنسی علوم سے بھی روشناس کروایا جانا چاہیے تاکہ وہ صحت مند دماغ لے کر معاشرے میں آئیں۔ مدارس کے علماء کی سرکاری طور پر ٹریننگ کا بندوست کیا جانا چاہیے تاکہ وہ بچوں کو اس کے مطابق پڑھائیں۔

ریاستی اداروں اور قانون کی رٹ قائم ہونی چاہیے۔ کوئی بھی عدم برداشت والا عمل ہونے سے پہلے قانون اور ادارے حرکت میں آئیں اور اپنا فعال کردار ادا کریں جس سے معاشرے میں عدم برداشت کو روکا جا سکے گا۔

کلاس سسٹم ایک ایسا قاتلانہ نظام ہے جو ہمارے معاشرے کی رگوں میں پیوست ہو چکا ہے۔ امیر مزید امیر اور غریب بہت غریب ہوتا جا رہا ہے۔ سوشلزم اور مارکسزم کی صورت میں اس کا حل ہمارے سامنے رہا لیکن اس کا اطلاق ندارد۔ گو کہ یہ ایک ایسا انقلابی نظریہ ہے جسے حاصل کرنا ایک خواب ہے۔ لیکن ریاست اتنی کوشش تو کر سکتی ہے کہ کسی حد تک مساوات کی بنیاد پر لوگوں کو حقوق مہیا کر سکے۔

عدم برداشت کے لیے سب سے اکسیر نسخہ یہ کہ عفو اور درگزر سے کام لیا جائے۔ معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے برداشت کے راہنما اصول وضع کیے جائیں۔

معاشرے کےتمام افراد خصوصاً نوجوان نسل کی مناسب دینی تعلیم کا بندوست کیا جائے، تاکہ قرآن و حدیث میں موجود عدم برداشت کی وجوہات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے بدترین اثرات کےشرعی حکم پر ان کی نظر رہے اور وہ کسی واقعہ پرعدم برداشت اور شرعاً ناجائز رد عمل کا مظاہرہ نہ کریں۔

 نصابی کتب میں اختلاف رائے ، رواداری اور احترامِ باہمی کے مضامین و واقعات شامل کیے جائیں،تاکہ طالب علم کی اس حوالے سے مناسب تربیت ہو۔

والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کریں کہ ان میں رشتوں کے حوالے سے قربانی اور صلہ رحمی کا بھرپور جذبہ موجود ہو۔

2 thoughts on “معاشرے میں عدم برداشت”

  1. Nosheen Mubashar

    Your valuable Opinion throgh your Column depicts its a serious issue of our society….and its our moral responsiblity to control our Emotions and gestures when we argue with someone….

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos