تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اسلام سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے یہ احترام جاری رکھا۔ اس مہینے میں جنگ و جدل ممنوع ہے۔یقینا محرم الحرام کا مہینہ عظمت والا اوربابرکت مہینہ ہے۔ اسی ماہ مبارک سے ہجری قمری سال کی ابتدا ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:”بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں۔ جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے “۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے:”حرمت کے چار مہینوں میں تین تومسلسل ہیں ، ذوالقعدہ ، ذوالحجۃ ، اورمحرم ، اورجمادی اورشعبان کے مابین رجب کامہینا جسے رجب مضرکہا جاتا ہے”۔ ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ سے اس آيت “لہذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پرظلم وستم نہ کرو“ کے بارے میں مروی ہے :”تم ان سب مہینوں میں ظلم نہ کرو اورپھر ان مہینوں میں سے چارکو مخصوص کرکےانہيں حرمت والے قراردیا اوران کی حرمت کوبھی بہت عظيم قراردیتے ہوئے ان مہینوں میں گناہ کاارتکاب کرنا بھی عظیم گناہ کا باعث قرار دیا اوران میں اعمال صالحہ کرنا بھی عظيم اجروثواب کاباعث بنایا “۔”حرمت والے مہینوں میں ظلم وستم کرنادوسرے مہینوں کی بنسبت یقینا زيادہ گناہ اوربرائی کا باعث ہے، اگرچہ ہرحالت میں ظلم بہت بڑی اور عظيم چيز ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالی اپنے امرمیں سے جسے چاہے عظيم بنا دیتا ہے۔“کہا جاتا ہے:”جسے اللہ تعالٰی نے تعظیم دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو، کیونکہ اہل علم وفہم اور ارباب حل وعقد کے ہاں امور کی تعظیم بھی اسی چيز کےساتھ کی جاتی ہے جسے اللہ تعالٰی نے تعظيم دی ہے۔“ اللہ تعالی کے نزدیک محرم کی بھی تکریم ہے اور انسانی جان بھی بہت مکرم ہے۔ انسان اللہ تعالی کی پسندیدہ مخلوق ہے جسے اللہ تعالی نے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ۔ سکالرز کا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی خلافت کی امانت کا بار اٹھانے کیلیے کئی طرح کی مخلوقات سے اذن مانگا لیکن انہوں نے انکار کر دیا جبکہ انسان نے یہ ذمہ داری قبول کر لی ۔ جملہ مخلوقات میں اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو چنا جبکہ بنی نوع انسان میں اللہ تعالی نے حضرت ابراھیم اور ان کی اولاد کو تکریم بخشی، مکرم بنایا۔ پیغمبر آخرالزماں ﷺ بھی حضرت ابراھیم کے فرزند حضرت اسمعیل کی نسل سے ہیں۔منقول ہے کہ فرشتہ نے کائنات کا گوشہ گوشہ کھنگالا مگر بنی ہاشم جیسا قبیلہ کہیں نہ ملا۔اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبر کو بنی ہاشم میں پیدا کیا۔مفکرین کا خیال ہے کہ حضرت محمد ﷺ کو حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین سب سے زیادہ عزیز تھے۔پیغمبر آخرالزماں ﷺ نے حضرت فاطمہ کو اپنے جگر کا ٹکڑا کہا ۔مزید فرمایا:” جس نے فاطمہ کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی”۔حضرت علی کے بارے میں ارشاد کا مفہوم ہے : “علی سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن علی سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق”۔حضرت امام حسن اور امام حسین جنت کے جوانان کے سردار ہیں۔ اللہ تعالی کے محبوب پیغمبر ﷺ کے محبوب ہیں۔فرقان کے علوم کو سمجھنے والے علمائے کرام کا خیال ہے کہ اہل بیت کی محبت اور عقیدت ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اہل بیت پر درود و سلام کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔اللہ نے اہل بیت کو چن لیا ہے۔عزت اللہ ، اللہ کے رسول ﷺ اور اہل بیت کے لیے ہے۔ اللہ کے دشمن رسول اللہ ﷺ کے دشمن، اہل بیت کے دشمن گمراہ بھی ہیں اور دھتکارے ہوئے بھی۔مفکرین کا خیال ہے کہ آخرت میں ایسے لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جن کو اقتدار ملے تو وہ زمین پر فساد پھیلا تے ہیں۔رشتے داروں کو قتل کرتے ہیں۔فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں۔فتنہ پھیلاتے ہیں ، فتنہ جو کہ قتل سے بھی زیادہ قابل نفرت ہوتا ہے۔اسلامی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ جید صحابہ کرام نے اس دور سے پہلے دنیا سے رخصت ہونے کی دعا مانگی جس دور میں حضرت امام حسین کو شہید کیا گیا۔شہید زندہ ہوتے ہیں۔ انتہائی پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں جس زندگی کا شعورعام افرادکو نہیں ہوتا ۔ انتہائی دکھ اور معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امام عالی مقام حضرت امام حسین جب کائنات میں موجود تھے تو بد بخت افراد کو اس وقت بھی ان کے عظیم الشان رتبے کا شعور تک نہیں تھا ۔حضرت امام وہ ہستی ہیں جن کو دیکھتے ہی نبی پاک ﷺ کے رخ انور پر خوشی کے آثار نمایا ں ہوجاتے تھے۔ پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ:”حضرت علی کو کائنا ت کا بدترین شخص شہید کرے گا۔اسلامی تاریخ پر نظر رکھنے والے سکالرز کا خیال ہے کہ حضرت علی کے شہزادوں کو تاریخ کے بدترین دور میں شہید کیا گیا۔اہل بیت کو اللہ تعالی نے عزت بخشی ہے۔ جو اہل بیت کی عزت نہیں کرتے وہ ذلیل و خوار ہو کے رہ جاتے ہیں ۔ اہل بیت کی عزت میں کمی نہیں کی جا سکتی۔ اپنی دنیا اور آخرت برباد کی جا سکتی ہے اور لوگ ہر دور میں اپنی دنیا اور آخرت بربادکرتے رہے ہیں۔کسی نے بالکل بجا کہا تھا کہ جب انسان بیدار ہو گا تو ہر قوم یہ پکارے گی ” ہمارے ہیں حسین”۔ معروف برطانوی ادیب فریا اسٹارک نے لکھا:-” امام حسینؓ نے جہاں خیمے لگائے وہاں دشمنوں نے محاصرہ کر لیا اور پانی بند کر دیا۔ یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 برس پہلے تھی۔ کربلا ان واقعات میں سے ایک ہے جس کو پڑھ کر کوئی روئے بغیر نہیں رہ سکتا”۔مشہور انگریزی ناول نگار چارلس جان ہفم ڈکنزن نے کہا:-” امام حسینؓ کی جنگ مال و متاع اور اقتدار کے لئے نہیں تھی اگر ایسا ہوتا تو وہ خواتین اور بچوں کو ساتھ لے کر کیوں جاتے ۔ وہ ایک مقصد کے لئے کربلا گئے۔ اور ان کی قربانی اسلام کے لئے تھی”۔کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ایڈورڈ جی برائون کے حوالے سے لٹریری ہسٹری آف پرشیا میں لکھا ہے:-” کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں خدا کے پیغمبرؐ کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا جب وہ بھوکے،پیاسے تھے اور اس کے ارد گرد ان کے لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں”۔لبنان کے عیسائی مصنف انتھونی بارا نے اپنی کتاب ’’حسین ان کرسچیئن آئیڈیالوجی‘‘ میں لکھا:ـ” جدید و قدیم دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں جس نے ہمدردی اور پذیرائی حاصل کی ہو،صرف معرکہ کربلا ہی ہے جس سے بہت سے اہم اسباق ملتے ہیں”۔تھامس کارلائل نے کہا:ـ” واقعہ کربلا نے حق و باطل کے مقابلے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسینؓ اور ان کے رفقاء خدا کے سچے پیروکار تھے۔ قلیل ہونے کے باوجود امام کی فتح متاثر کرتی ہے”۔مہاتما گاندھی نے کہا تھا اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسینؓ ابن علیؓ کی قربانی کا نتیجہ ہے۔پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا:ـ” امام حسینؓ کی قربانی کسی ایک قوم نہیں بلکہ سب کے لئے ہے یہ صراط مستقیم کی اعلیٰ ترین مثال ہے”۔بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پراشاد بیدی نے کہا:”امام حسینؓ کی قربانی بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے”۔مسز سروجنی نائیدو نے کہا:”امام حسینؓ دنیا کے تمام مذاہب کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ہر کمیونٹی کے لئے باعث فخر ہیں”۔آئیے!اللہ تعالی سے دعا مانگیں کہ وہ ہمیں امام ذی وقار کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔امام کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے۔امام کے راستے پر چلنے والا ہر شخص عظیم ہے، واجب تکریم ہے، معظم ہے، مکرم ہے۔اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں غم حسین کے سوا کوئی غم نہ دے۔