Premium Content

!ملازمت، ضمیر اور تفصیلی فیصلہ

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:    شفقت اللہ مشتاق

بلاشبہ انسان دنیا میں بے مقصد نہیں آیا بلکہ اس کو ایک خاص مقصد کے تحت یہاں بھیجا گیا ہے اور اس سلسلے میں عہد الست کے خدوخال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید میں بھی بارہا غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کام کا آغاز اپنے آپ پر غور کرنے سے کیا جا سکتا ہے اور پھر پوری کائنات کو غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے ہم تخلیقات پر غور کرتے ہیں خالق کی اہمیت ہمارے دل ودماغ میں واضح ہوتی چلی جاتی ہے اور ہم صانع کائنات اور اس کے احکامات کے بارے میں سنجیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی کام کو کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں انسان سنجیدہ ہوجائے۔ سنجیدگی وہ کرنٹ ہے جس سے تحریک پیدا ہوتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چیزیں اپنے منطقی انجام کو پہنچنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کاش ہم ہر چیز کو عقلی اور منطقی انداز سے پرکھنے کے عادی ہوجائیں۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں تعلیمی اداروں میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور منطق بھی پڑھایا جاتا تھا اور پھر منطق کی کوکھ سے سائنسی علوم جنم لیتے تھے۔ ایسے تو نہ یونان کی کتابیں عربوں کی آنکھیں کھول دیتی ہیں اور عرب سپین میں آکر یورپ میں نشاہ ثانیہ کا باعث بنتے ہیں۔ مذکورہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب پر بشمول میرے یہ حقیقت عیاں ہو جانی چاہیے کہ ہم سب دنیا میں ایک مینڈیٹ کے ساتھ آئے ہیں اور اس کو پورا کرنےکے لئے ہماری تعلیم وتربیت کی ضرورت ہے اور منزل کا پتہ ہونا شرط اول ہے۔ شرط کے جیتنے پر محبوب کو پانا اور ہار کر محبوب کا ہو جانا شعری ذوق ہے اور ذوق شوق کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مجبوری کے تحت اگر کوئی کام کیا جائے تو اس کی کوالٹی آف ورک کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ اختتامی صورتحال میں رائے نے تو بہرحال منظرعام پر آنا ہوتا ہے اس لئے منظر نگاری کو آنکھیں کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چند ہی یوم قبل میں نے ریٹائرمنٹ پر ایک کالم تحریر کیا۔ محترم ظہور حسین سیکریٹری سوشل ویلفیئر سے میں نے ہر ملاقات میں کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ میں نے ان سے لوگوں کے مسئلے مسائل سمجھنے اور ان مسائل کو حل کرنے لئے حتی المقدور کوشش کرنا سیکھا ہے۔ مختصرً انہوں نے مجھے ریٹائرمنٹ سے پہلے کے معاملات پر دعوت فکر دی۔ ہمارے معاشرے میں دعوت شیراز تو روز دی جاتی ہے جب کہ دعوت فکر دینے میں تکلف سے کام لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جسمانی طور پر بڑے ہی وزنی ہوگئے ہیں اور ذہنی طور پر بڑے ہی ہلکے ہوگئے ہیں۔ یہی بات قابل غور بھی ہے اور قابل ذکر اور فکر بھی۔ ہم بات بات پر ایک دوسرے سے کہتے پائے گئے ہیں ”آپ فکر نہ کریں“ویسے ہم خود بھی فکر نہیں کرتے۔ یوں ہمارے معاملات روز بروز خوفناک حد تک برے ہوتے جارہے ہیں اور ہم جنگل کے جانوروں کی طرح ایک دوسرےکو گھورکر ڈرا رہے ہیں حالانکہ ہم اندر سے خوفزدہ لوگ ہیں اور اوپر سے لش پش۔ ہمیں خوف اس بات کا ہے کہ کہیں ہم سے کچھ چھن نہ جائے ویسے ہمارے پاس ہے ہی کیا جس کے چھن جانے کا ہمیں خدشہ ہے۔ خدشات کی دنیا سے نکل کر آگے دیکھنے کی ضرورت ہے اور آگے دیکھنے والے ہی منزل پر پہنچنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ آئیے سب سے پہلے ادھرادھر دیکھنے کی بجائے آگے دیکھتے ہیں اور پھر سوچ بچار کے زاد سفر کے ساتھ اپنی منزل پر روانہ ہوتے ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض باتیں کتنی اہم ہوتی ہیں اور ان باتوں سے دل دماغ کی کھڑکیاں جھٹ میں کھل جاتی ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے سب سے مشکل کام ان کھڑکیوں کو کھولنا ہے۔ اس کے بعد ٹھنڈی ہوائیں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور خون کی گردش نارمل ہونے سے سوچ کا میٹر اپنی مطلوبہ رفتار پر چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ 

میرے جیسے بے شمار لوگوں کی روزی کا میٹر تنخواہ کے فیول سے چلتا ہے۔ اور ہر مہینے تنخواہ کسی کام کے نتیجے میں اداکی جاتی ہے۔ یہ ”کام“ نام کی چیز کہیں نہ کہیں گم ہو گئی ہے۔ جبکہ ہر مہینے تنخواہ میرے بینک اکاؤنٹ میں پہنچ کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ وائے میرا نام تو کام سے ہونا ہے۔ ویسے بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ رحمانی اورشیطانی ناموں اور کاموں کی ہیئت بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔    سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اپنے استحقاق کے چکر میں پڑنے والے بالآخر چکرا جاتے ہیں۔ نہ گھر کے نہ گھاٹ کے۔ اندھا دھند کام کرنے والے جانے بھی جاتے ہیں اور پہچانے بھی جاتے ہیں۔ حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح نے ہمیں ایک ہی رستہ دکھایا تھا اور وہ تھا کام کام اور صرف کام۔ کام اور عمل کے اجزائے ترکیب میں رتی کا بھی فرق نہیں ہے اور بقول اقبال ”عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی“۔ جس کسی نے اپنے ہم جنسوں کے لئے کچھ کیا ہے ہم جنسوں نے پھر اس کے تاقیامت ڈنکے بجائے ہیں۔ آج ہم سب کو ڈنکے کی چوٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ ہماری بحیثیت ملازمین صورتحال یہ ہے کہ ہم انا کے گھوڑوں پر سوار ہو چکے ہیں اور ان کو تھوک کے حساب سے ذاتی منفعت کی ایڑھیاں مار رہے ہیں۔ ہم نے سائلین پر اپنے دفتروں کے دروازے بند کردیئے ہیں اور اپنے آپ کو خوبصورت کمروں میں بند کرکے اپنے آپ کو معتبر اور طاقتور سمجھ رہے ہیں۔ فائلوں سے شطرنج کے مہروں کی طرح کھیل رہے ہیں۔ ویسے ہم خود شطرنج کے مہرے ہیں جن کی چال کا تعین بادشاہ مزاج کو مدنظر رکھ کر کیاجاتا ہے۔ اب بازی کی ہار جیت کا فیصلہ بھی وقت کرے گا۔ اوروقت کیا شے ہے پتہ آپ کو چل جائیگا ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھو گے تو جل جائیگاایک طرف پھول اور ان کی مہک اور دوسری طرف کوڑے کا ڈھیر اور تعفن۔ فیصلہ ہم سب نے مل کر کرنا ہے اور ہماری کھیلی جانے والی اننگ کے معیار کا فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ فیصلہ تو روز آتا ہے اور تفصیلی فیصلہ بوقت ریٹائرمنٹ آنا ہوتا ہے۔ فیصلہ آنے کی گھڑی قریب ہے۔ سوچ بچار کی اشد ضرورت ہے۔ اس بات کا شعوری احساس ہونا پوری کہانی کا لب لباب ہے۔ کام کوئی ایسی الف لیلیٰ کی کہانی نہیں جو سمجھ نہ لگے۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پڑھا لکھا ان پڑھ بہت ہی نقصان دہ ہوتا ہے ایسے موذی مرض کی سرجری وقت کی ضرورت ہے۔ تحمل اور برداشت دانائی اور حکمت کی پنیری کے لئے کھاد کا کام دیتے ہیں۔ دانائی کا تقاضہ ہے ہر ملازم اپنی ملازمت کے ابتدائی سال میں ہی اپنے کام کی نوعیت کو سمجھے اور اس سلسلے میں اپنے فرائض کے حدود و قیود کا تعین کرلے اور پھر یکسوئی سے ان خطوط پر کام شروع کردے اور ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ ایک دن اس نے ریٹائر ہونا ہے اور عوام نے اس کی کارکردگی کے بارے میں اپنا تفصیلی فیصلہ سنانا ہے۔ ویسے بھی اس نے اپنے ضمیر کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے اور بقیہ زندگی میں اس کے اطمینان یا عدم اطمینان کا فیصلہ ضمیر نے کرنا ہے۔ ضمیر کو مرنے نہ دیں ورنہ یہ ایک دن دوبارہ زندہ ہوکرآپ کو ماردے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos