نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی ایک سفارتی غلطی

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کونسل آف فارن ریلیشنز میں امریکی تعلیمی برادری سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور چین کے تعلقات کا موازنہ امریکہ اور اسرائیل سے کیا۔ موازنہ بنیادی طور پر ناقص ہے اور اس نے بہت زیادہ تنقید کی دعوت دی ہے۔ اتنے اہم فورم پر خطاب کرتے ہوئے اور وہ بھی اہل علم کی موجودگی میں، پی ایم کاکڑ نے لاپرواہی سے الفاظ کا انتخاب کرکے غلط فہمی کی گنجائش کھوپیدا کر دی۔

پاکستان طویل عرصے سے اسرائیل کی نسل پرست ریاست کے بارے میں سخت موقف رکھتا ہے۔ ’’پاکستان چین کا اسرائیل ہے‘‘ کہہ کر وزیراعظم نے فلسطین پر ہونے والے ناانصافیوں کے تئیں لوگوں کی حساسیت کو چھوا ہے۔ اس اظہار کا انتخاب سفارتی ذہانت کی ایک بڑی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یقیناً تعلقات بہت مضبوط ہیں لیکن امریکا اور اسرائیل کا موازنہ انتہائی نامناسب اور بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ تھا۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی حرکیات بہت پیچیدہ ہیں۔ لیکن پاکستان کی سفارتی تاریخ میں اسرائیل کی مذمت ہماری اقدار کے لیے مقدس وابستگی رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کا اسرائیل جیسا کہنا بہت غلط تاثر دیتا ہے اور اس لیے اسے سراسر صدمے سے پذیرائی مل رہی ہے۔ آنے والے ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ کیوں سفارتی زبان کا انتخاب احتیاط سے کیا جانا چاہیے اور اسے ہمیشہ کسی ملک کی بنیادی اقدار کی نمائندگی کرنی چاہیے۔

پاکستان اسرائیل کی جتنی مذمت کرتا ہے، چین کے ساتھ اپنی گہری دوستی کا جشن مناتا ہے۔ لہذا، وزیر اعظم کے الفاظ ملک کے ان دونوں اہم موقفوں کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ رہنما، نمائندے، اور سفارت کار بین الاقوامی سامعین سے خطاب کرتے وقت بہت احتیاط سے اصطلاح کا انتخاب کریں۔وزیر اعظم جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ کسی پالیسی بیان سے کم نہیں ہوتا اور اس لیے اسے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ تیار کیا جانا چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos