Premium Content

نیب سربراہ کا  اپنے عہدےسے مستعفی ہو جانا

Print Friendly, PDF & Email

آفتاب سلطان، جنہیں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے گزشتہ جولائی میں ”بے عیب، دیانت دار، ماضی کا متاثر کن ریکارڈ رکھنے والا“ قرار دیا تھا، جن کی شناخت  کسی بھی  شک و شبہ سے بالاتر ہے نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے عہدے سے”مداخلت“ اور ”دباؤ“کی وجہ سے استعفا دے دیا۔ اگرچہ رانا ثناء اللہ نےآفتاب  سلطان کو بطور چیئرمین  کی تقرری کے وقت ’امید‘ کی تھی کہ وہ ”بغیر کسی جانبداری کے احتساب مہم کو آگے بڑھائیں گے“، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ حلقوں کا انہیں ان شرائط پر کام کرنے دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ان پر پارٹی سربراہ عمران خان کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنس دائر کرنے کے لیے دباؤ تھا، اور انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کرنے کی وجہ سے استعفا دیا۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ایک پریس ریلیز میں ’ذاتی وجوہات‘ کا حوالہ دیا گیا، جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم نےآفتاب  سلطان کی خدمات کو سراہا، ان کی ایمانداری اور راست بازی کی تعریف کی، اور صرف ان کے اصرار پر استعفا قبول کیا ۔

اگرچہ گزشتہ سال پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے ملک کے احتساب کے قوانین میں ترامیم کے بعد نیب سے  تقریباً مکمل طور پراختیارات واپس لے لیے گئے ہیں۔لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ادارے کو استعمال کرنے کا فتنہ اب بھی موجود  ہے۔ اگرچہ آفتاب  سلطان کا دفتر میں قیام مختصر تھا، لیکن لگتا ہے کہ وہ نیب کو بدنامی سے نکالنے میں کچھ کامیابی حاصل کر چکے ہیں ۔ یہ قابل تعریف ہے کہ انہوں نے نیب کو ایک بار پھر سیاسی ظلم و ستم کا آلہ کار بننے سے انکار کردیا۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو ٹیلی فون کالز کے ذریعے ’’ڈکٹیشن‘‘ ملے  کرے گی، لیکن اُنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر کے نہ صرف اپنی عزت بڑھائی بلکہ ادارے کے وقار کو بھی بلند کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ نیب اُن کے جانے کے بعداب کیسے کام کرے گا؟ سیاسی سرگرمیاں ایک بار پھر گرم ہونے کے بعد، جو لوگ آفتاب سلطان کو حکم دے رہے تھے، ان کے پیچھے ہٹنے کا امکان نظر نہیں آتا۔

یہ حکومت کے لیے بہت بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ ایک ریٹائرڈ گریڈ 22 کا افسر جس کا ٹریک ریکارڈ صاف شفاف تھا، جو ایک بار ڈکٹیٹر کے خلاف بھی  کھڑا ہوا تھا جس  کااُنہیں  خمیازہ بھگتنا پڑا تھا نے خدمت جاری رکھنے کے بجائے گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔ اب توجہ اس طرف رہے گی کہ ان کی جگہ کس کو اور کیسے مقرر کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واپسی اور ایوان میں اپوزیشن کی قیادت راجہ ریاض احمد سے واپس لینے کی خواہشمند نظر آتی ہے، جن سے اپنے سیاسی جھکاؤ کے پیش نظر آزادانہ طور پر کام کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ تقرری کے عمل کی روح کے خلاف ایک اور چیئرمین نیب کی تقرری پر اصرار کرنے کے بجائے حکومت پی ٹی آئی کو میز پر بیٹھنے دے اور باہمی رضامندی سے نام کا فیصلہ کرے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ کچھ حلقے نیب کو سیاسی ظلم و ستم کے لیے استعمال کرنا جاری رکھنے کے خواہاں ہیں، اگر یہ اس معاملے پر اس طرح کام کرتے رہے تو یہ پی ڈی ایم کی ساکھ کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos