Premium Content

او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا

Print Friendly, PDF & Email

ابو الاثر حفیظ جالندھری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔

حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے، جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیاء کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔

حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے، اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری نے یہ خوب صورت قومی ترانہ احمد جی  چھاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اسے 4اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔ حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت؎ نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ابھی تو میں جوان ہوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیا اور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔

او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا

ہاں میرے مجروح تبسم خشک لبوں تک آتا جا
پھول کی ہست و بود یہی ہے کھلتا جا مرجھاتا جا

میری چپ رہنے کی عادت جس کارن بد نام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے سنتا جا شرماتا جا

یہ دکھ درد کی برکھا بندے دین ہے تیرے داتا کی
شکر نعمت بھی کرتا جا دامن بھی پھیلاتا جا

جینے کا ارمان کروں یا مرنے کا سامان کروں
عشق میں کیا ہوتا ہے ناصح عقل کی بات سجھاتا جا

تجھ کو ابرآلود دنوں سے کام نہ چاندنی راتوں سے
بہلاتا ہے باتوں سے بہلاتا جا بہلاتا جا

دونوں سنگ راہ طلب ہیں راہنما بھی منزل بھی
ذوق طلب ہر ایک قدم پر دونوں کو ٹھکراتا جا

نغمے سے جب پھول کھلیں گے چننے والے چن لیں گے
سننے والے سن لیں گے تو اپنی دھن میں گاتا جا

آخر تجھ کو بھی موت آئی خیر حفیظؔ خدا حافظ
لیکن مرتے مرتے پیارے وجہ مرگ بتاتا جا

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos