ارشد محمود اعوان
پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف مسلسل اور سخت جدوجہد اب ایک طویل، کٹھن اور بھاری قیمت والا مرحلہ بن چکی ہے۔ ملک کے اعلیٰ تربیت یافتہ سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں اس جنگ کی شدت اور پیچیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان مخالف شدت پسند گروہ، خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان، اب بھی غیر ملکی سرزمین-بالخصوص افغان علاقےکو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ہی میں اس تلخ حقیقت کی ایک اور یاد دہانی ہوئی جب خیبر پختونخوا کے اورکزئی قبائلی ضلع میں ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران دو افسران سمیت گیارہ سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ اسی دوران، ڈیرہ اسماعیل خان میں انسدادِ دہشت گردی کارروائی کے دوران ایک میجر کی شہادت اور ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت نے یہ واضح کر دیا کہ دہشت گردی کا خطرہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
دہشت گردی، جرائم اور سیاست کا گٹھ جوڑ
حالیہ مہینوں میں بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر میں کور کمانڈرز کانفرنس نے فیصلہ کیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں “تمام میدانوں میں” جاری رکھی جائیں گی تاکہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور علیحدگی پسند بلوچ گروہوں کو مکمل طور پر کچلا جا سکے۔ تاہم، اس اجلاس میں ایک نئی اور خطرناک بات پر زور دیا گیا — “دہشت گردی، جرائم اور سیاسی سرپرستی کے درمیان تعلق” — جسے ملک کی عسکری قیادت نے ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس بیان کی عوامی وضاحت ضروری ہے۔ ماضی میں کراچی جیسے شہروں میں بعض سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے شواہد ملتے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ انتباہ انہی پرانے خطرات کی واپسی کی طرف اشارہ ہے یا کسی نئے، زیادہ خطرناک جرائم-سیاست-دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کی طرف؟ جب تک اس رشتے کی نوعیت مکمل طور پر واضح نہیں ہوتی، ریاست جڑ سے مسئلہ ختم نہیں کر سکتی۔
عملی حکمتِ عملی میں فوری تبدیلی کی ضرورت
سکیورٹی اہلکاروں کی بڑھتی ہوئی شہادتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ آپریشنل حکمتِ عملی کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔ پاکستان اس رفتار سے نقصانات برداشت نہیں کر سکتا، خاص طور پر جب زیادہ تر شہادتیں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز میں پیش آ رہی ہوں۔ اگرچہ ایسے آپریشن دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں مؤثر ہیں، مگر مسلسل نقصانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب حکمتِ عملی اور سازوسامان دونوں کو جدید بنانا ہوگا۔ اس کے لیے میدان میں جدید ٹیکنالوجی، بہتر انٹیلی جنس، اور خطرے سے بچاؤ کے مؤثر نظام متعارف کرانا ناگزیر ہے تاکہ دہشت گرد گروہوں کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملیوں کا بروقت مقابلہ کیا جا سکے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی جانوں کا تحفظ ہی انسدادِ دہشت گردی کی پائیدار کامیابی کی بنیاد ہے۔
افغانستان کا کردار اور علاقائی اتفاقِ رائے
افغان سرزمین کا دہشت گردوں کے لیے استعمال اب صرف پاکستان یا افغانستان کا معاملہ نہیں بلکہ پورے خطے کی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ماسکو فارمیٹ مشاورت کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کے نمائندے نے واضح طور پر مطالبہ کیا کہ افغانستان اپنی سرزمین سے کام کرنے والے تمام دہشت گرد گروہوں کو ختم کرے۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیے، جس میں روس، چین، ایران اور افغانستان کے نمائندے شامل تھے، نے افغان حکومت کو خبردار کیا کہ دہشت گردی کا تسلسل نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔
یہ علاقائی اتفاقِ رائے پاکستان کے لیے سفارتی لحاظ سے ایک اہم موقع ہے۔ اس لیے پاکستان کو دوہری حکمتِ عملی اپنانی ہوگی: ایک طرف اندرونی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کو مزید مؤثر بنانا، اور دوسری جانب علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر افغان عبوری حکومت پر سخت سفارتی دباؤ ڈالنا کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گرد گروہوں کے استعمال سے مکمل طور پر پاک کرے۔ کابل کے لیے پیغام واضح ہونا چاہیے: علاقائی استحکام، معاشی تعاون اور عالمی قبولیت اُن ممالک کے لیے مخصوص ہے جو دہشت گرد گروہوں کو پناہ دینے کے بجائے اُن کے خلاف ٹھوس کارروائی کریں۔ بصورت دیگر، افغانستان کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے لیے حتمی راستہ
موجودہ صورتِ حال ناقابلِ برداشت ہے۔ پاکستان ایک ایسے ملک کے ہاتھوں مزید جانی نقصان برداشت نہیں کر سکتا جو دہشت گردوں کو اپنی سرزمین سے حملوں کی اجازت دیتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی دو واضح نکات پر استوار کرے: پہلا، اپنے اہلکاروں کی جانوں کے تحفظ کے لیے عملی اور تکنیکی حکمتِ عملی میں فوری تبدیلی، اور دوسرا، افغانستان سے واضح اور قابلِ تصدیق اقدامات کا مطالبہ کہ وہ اپنی زمین سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرے۔ قومی سلامتی کے لیے یہی دو نکات بنیادی شرط ہیں — سیاسی گٹھ جوڑ کی وضاحت اور کابل کی مکمل ذمہ داری۔