Premium Content

Add

پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے

Print Friendly, PDF & Email

ناصر کاظمی کے کلام میں جہاں ان کے دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں، ایک بستی سے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرتِ تعمیر ملتی ہے، وہیں وہ اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل  نہیں رہتے۔ ان کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے
ہم لاکھ بدل جائیں مگر دل تو وہی ہے

موضوع سخن ہے وہی افسانۂ شیریں
محفل ہو کوئی رونق محفل تو وہی ہے

محسوس جو ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا
دل اور نظر میں حد فاضل تو وہی ہے

ہر چند ترے لطف سے محروم نہیں ہم
لیکن دل بیتاب کی مشکل تو وہی ہے

گرداب سے نکلے بھی تو جائیں گے کہاں ہم
ڈوبی تھی جہاں ناؤ یہ ساحل تو وہی ہے

لٹ جاتے ہیں دن کو بھی جہاں قافلے والے
ہشیار مسافر کہ یہ منزل تو وہی ہے

وہ رنگ وہ آواز وہ سج اور وہ صورت
سچ کہتے ہو تم پیار کے قابل تو وہی ہے

صد شکر کہ اس حال میں جیتے تو ہیں ناصرؔ
حاصل نہ سہی کاوش حاصل تو وہی ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1