پی ڈی ایم کی گیارہ سیاسی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام ف کے علاوہ کسی سیاسی جماعت کے پاس یہ سیاسی قوت نہیں ہے کہ اسلام آباد میں کارکنوں کو اکٹھا کر سکے۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت اندرون سندھ تک محدود ہے اور مسلم لیگ ن انتہائی غیر مقبول ہے۔ تاہم تنقید نگاروں کا خیال ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے پاس سیاسی کارکنوں کی بجائے مدرسے کے طالبِ علم ہیں جو کہ جمعیت کے زیر انتظام چل رہے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ کارکنوں کی بناوٹ کیا ہے،پی ڈی ایم اسلام آباد میں مضبوط اجتماع اکٹھا ضرور کر لے گی۔ یہ اس لئے بھی آسانی سے ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت بھی ہے۔ اب تجزیہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کیا مضبوط اجتماع سے سپریم کورٹ کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے؟ سیاسی جماعت کی طاقت اسکے ورکرز ہیں جبکہ عدالت کی طاقت آئین و قانون سے اخذ وہ طاقت ہے جو کہ وہ کچھ الفاظ کی صورت میں فیصلے یا آرڈر میں لکھتی ہے۔ یہ کچھ الفاظ نہیں بلکہ ریاست کی حتمی طاقت کا اظہار ہیں جن کو کسی بھی سیاسی جماعت کا جتھہ بدل نہیں سکتا ہے۔ عدالت کے فیصلے اور آرڈر کا انکار ممکن ہی نہیں جب تک کہ عوامی سپورٹ اسکو میسر رہے۔ آئین اور قانون کی طاقت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا اگر یہ عملداری پر تل جائے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کے اجتماع کے کیا مقاصد ہیں؟ پہلا مقصد یہ ہے کہ پی ڈی ایم کو معلوم ہے کہ انہوں نے چودہ مئی کو الیکشن نہ کروا کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ مزید وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انکو عدالتی توہین کا سامنا ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ عدالت پر پریشر ڈال کر عدالت کو کارروائی سے باز رکھیں۔ دوسرا وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سڑک کی طاقت دکھا کر تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور کے تاثر کو ختم کیا جائے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ خود کو عوام کے اندر بالعموم اور اپنے ورکرز کے اندر بالخصوص بے قصور ثابت کیا جائے کہ عدالت، پارلیمنٹ کی بالادستی کے خلاف صرف کچھ جج صاحبان کے زیر اثر ہے۔ پی ڈی ایم جج صاحبان کو متنازع بنا کر عدالتی فیصلوں کو عوام کے اندر غیر مقبول کرنا چاہتی ہے۔
لیکن کچھ تنقید نگار سب سے اہم بات یہ سمجھ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم عمران خان کو کسی صورت اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ وہ مارشل لاء یا ایمرجنسی کو عمران حکومت سے بہتر گردانتے ہیں۔ تاہم آئی ایس پی آر نے اس کی تردید کی ہے۔ مگر پھر بھی مسلم لیگ ن کا میڈیا اس بیانیہ کو فروغ دے رہا ہے۔ پی ڈی ایم کا اسلام آباد میں اکٹھا ہونے کا آخری مقصد تحریک انصاف کے ورکرز کو اشتعال دلوا کر احتجاجی سیاست کو کنٹرول کرنا ہے۔کچھ تنقید نگاروں کے مطابق وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امن و عامہ خراب ہونے سے اگر مارشل لاء یا ایمرجنسی بھی لگ جائے تو بہتر ہے مگر کم ازکم عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنا چاہیے۔
یہ پی ڈی ایم کا آخری پتہ ہے اور اگر اسکا اجتماع کامیاب نہ ہو سکا تو تحریک انصاف کو سیاست جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔