Premium Content

پنجاب اورعمران خان کی سیاست

The Punjab Assembly shall stand dissolved after 48 hours, even if the Governor does not sign it. What is next?
Print Friendly, PDF & Email

ایسا لگتا ہے کہ ہم مزید نامعلوم علاقے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے عمران خان کی ہدایت کے مطابق صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر دیے، حالانکہ ایوان نے اُن پر اعتماد کا اظہار بھی کر دیا تھا۔

گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ بھیج کر انہوں نے مسلم لیگ ن کی ان امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی  اپنی حکومت نہیں کھونا چاہیں گے۔

اس تازہ ترین پیش رفت پر مرکزی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کا کیا ردعمل ہوگا؟ مسلم لیگ ن کے خیال میں بھی نہیں تھا کہ پرویز الہٰی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے لکھیں گے ۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور  اسمبلی کی تحلیل کو روکنے پر ناکامی سے ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ نہ کے پاس  اچھے آئیڈیاز کی کمی ہے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/governor-punjab-ch-pervaiz-elahi-ko-etamad-ka/

پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کی تحلیل سے عمران خان  اپنے مقصد  قبل از وقت انتخابات میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، مگر مسلم لیگ ن کو آئندہ عام  انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔

اسمبلیوں کی تحلیل سے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ صوبائی اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل کئی قانونی سوالات کو جنم دے گی جنہیں دونوں صوبوں میں انتخابات سے قبل حل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پرعام انتخابات ،قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ایک ہی وقت پر ہونے چاہئیں۔

تاہم، پنجاب اور کے پی میں انتخابات،  پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کےبعد90 دنوں کے اندر کرانا ہوں گے، جس سے ایسی صورتحال پیدا ہو جائے گی جس میں یہ انتخابات قومی اسمبلی کے انتخابات سے مکمل طور پر الگ ہو جائیں گے ۔ ایسی صورت میں عمران خان کے مخالفین کو ان کا قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ ماننا پڑے گا۔

اگر وہ ایسے نہیں کرتے تو انتخابی قانون میں کچھ تبدیلی ضروری ہو جائے گی۔ دوسری بات، اور شاید اس سے بھی زیادہ مبہم بات یہ ہے کہ آئین اور انتخابی قانون دونوں کا تقاضا ہے کہ عام انتخابات مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں میں نگراں حکومتوں کے تحت کرائے جائیں۔

اس حالت کو دیکھیں تو قبل از وقت صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد دونوں صوبوں میں جو حکومتیں برسراقتدار آئیں گی ان کا کیا بنے گا؟

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/subai-governance-ki-bunyadi-aini-zarurat/

اس معمے کو حل کرنے کا واحد راستہ انتخابات کے لیے قانونی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہے ۔ اس کا متبادل یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں سے مشورہ لیا جائے ۔

تاہم، اس الجھن کے درمیان جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ مرکز اور صوبے کے درمیان جاری تنازعہ نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں گورننس کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos