Premium Content

صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

 امجد اسلام امجد سوچ میں ڈوب کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ مایوس ماحول میں امید کی شمع جلا کر پریشان حال لوگوں کو ان کی منزل کا راستہ دکھاتا ہے اور پھر ان کی ڈھارس بندھاتا ہوا اور اپنے پراثر شعر سناتا ہوا ان کوان کی منزل پر لے کر پہنچ جاتا ہے۔ نشان منزل کوئی ان سے سیکھے۔ عصر حاضر کا منفرد اور یکتا شاعر۔ امید کا شاعر۔ جستجو کا شاعر۔ عشق و محبت کا شاعر۔ زندگی و بندگی کا شاعر۔ بے نیازی و خود داری کا شاعر۔ گل و گلزار و ریگزار کا شاعر۔نئی امنگوں کا شاعر۔ من میں ڈوب جانے والاشاعر۔ فطرت کے اندر جھانکنے والا شاعر۔ ہر کسی کی سوچ کو جھنجھوڑنے والا شاعر۔ ہر کسی کی بات کرنے والا شاعر۔ بلکہ پوری زمین اور پورے آسمان کا شاعر۔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر

صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں

انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں

کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں

عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں

دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں

بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos