کالم نگار : چوہدری نوید دیرتھ
https://twitter.com/NAVEEDDEERATH کالم نگار سِول سرونٹ ہیں۔ ان کا ٹؤٹر ہینڈل
دسمبر کی یخ بستہ رات کے پچھلے پہر فورٹ منرو کی چوٹی پر تعمیر شدہ پولیٹکل اسسٹنٹ کے سرکاری گھر کے لان میں آگ کے الاؤ کے گرد کرسیوں پر براجمان ہم چند دوست گپ شپ کر رہے تھے۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ بھی ہے کہ سیاست کسی نہ کسی طرح ہر حال میں ہماری بحث کا حصہ رہی ہے۔ ہاتھوں میں چائے کا کپ پکڑے ہوئے ایک دوست نے اچانک فیصلہ صادر فرمایا کہ ہمارے ملک کے سیاست دان اچھے نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ بیٹھے ایک بیوروکریٹ دوست نے منہ سے کچھ بولے بغیر چائے کی چسکی لگاتے ہوئے اتنا لمبا سر کو آگے پیچھے کھینچ کر ہاں میں ہاں ملائی کہ جیسے انتقامی کارروائی کا فیصلہ جاری کررہا ہو، اس سے آگے کرسی پر ٹانگیں سکڑ کر آگ پر ہاتھ تاپتے ہوئے ایک اور بیوروکریٹ صاحب نے بی تائید میں سر کو اندازِ بے نیازی سے جنبش دی، پھر پتا نہیں کہاں سے اچانک میرے ذہن میں کچھ سابقہ تجربات اور لوگوں سے کیے گئے حال احوال سے سوچ کا ایک مختلف دھارا نمودار ہوا اور میں بے ساختہ بولا سیاستدان برے نہیں ہیں وہ ہی اندھیر ی رات میں روشنی کی کرنیں۔ وہی کشتی کے اصل ملاح ہیں اور ہم بیوروکریٹ اور کئی سرکاری افسران سے ہزار گنا عوا م کے حقیقی خیر خواہ ہیں۔
سب دوستوں نے میری بات پر حیرانگی سے مجھے دیکھا جیسے میں ان کے قبیلے میں ہونے کے باجود کوئی گناہ سرزد کر بیٹھا ہوں۔ وہ مجھے گھورتے ہوئے آپ سے تم پر آتے ہوئے بولے تم بتاؤ، ہم بیوروکریٹ اور دوسرے کئی افسران سے سیاستدان بہتر ہیں؟ تو میں ان سے چند سوال کیے
“کہ کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی سیاستدان کا ڈیرہ صبح شام، اتوار، عید یا کسی بھی دن کبھی بند ملا ہو؟”
وہ سب بولے! ہاں یہ تو ہے ان کے ڈیرے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔پھر پوچھا کہ کیا کبھی سیاستدان کے ڈیرے سے کسی سائل کو بے عزت ہو کر یا ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے جاتے دیکھا ہو؟ کبھی کسی شخص کو کسی سیاستدان کے ڈیرے سے بغیر چائے پانی یا کھانے کے لوٹتا ہویا دیکھا ہو؟
وہ چاروں دوست بیوروکریٹ بڑی توجہ سے چہرے پر جھنجلاہٹ لاتے ہوئے مجھے سن رہے تھے مگر تائید میں سر ہلائے جارہے تھے جیسے لاشعوری طور پر ان کے ضمیر خود ہی انہیں حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کیے جارہے ہوں۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ آپ سب کو ایک آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرتا ہوں۔
ایک دفعہ ضلع قصور کے ایک معروف سیاستدان اور سابقہ ایم این اے اپنے ڈیرے پر علاقہ کے بہت سارے معززین کے ساتھ کمرے میں تشریف فرما تھے۔ ایک آدمی باہر سے آیا اور ان کے ڈیرے پر موجود ایک ملازم سے کہاکہ چوہدری صاحب نوں کہو کہ باہر آکے میری گل سن لین چوہدری صاحب نے اپنے ملازم سے کہا ان کو بٹھائیں میں آتا ہوں۔چوہدری صاحب نے حاضرین سے مسکراتے ہوئے معذرت کی کہ پہلے مجھے ان کی بات سننا ہوگی۔ چوہدری صاحب اپنے کمرے سے باہر آئے اور اس بندے سے پوچھا کہ یوسف صاحب کی حال اے، کیویں آنا ہویا اے یوسف جواب دیتا ہے چوہدری صاحب تھانے دار گل نہیں سندا تے الٹا تنگ کیتی کھڑا اے
چوہدری صاحب نے اپنی تمام مصروفیات کے باجود یوسف کاکام کیا جس پر وہ بندہ چوہدری صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چلاگیا۔ یوسف تو چلا گیا مگر کسی اور دنیا میں گہری سوچوں میں مبتلا کرگیا یہ کیسے عظیم لوگ ہیں جو سخت لہجوں کو بھی مسکرا کر برداشت کرتے ہیں اور کسی کو اپنے درسے خالی و مایوس نہیں لوٹنے دیتے۔ اس ک بعد میں نے کہا کہ آپ نے ایک سیاستدان کے ڈیرے کا عکس تو دیکھ لیا اب ذرا بیوروکریسی و سرکاری افسران کے دفاتر کو دیکھتے ہیں۔ میرے پہلے سوال پر ہی وہ ایسے چونکے جیسے الاؤ ان کے سامنے سے ہٹا کر ان کی کرسیوں کے نیچے رکھ دیا گیا ہو۔ میں نے سوال داغا کہ کیا کوئی غریب اور بے بس سائل کسی بیوروکریٹ یا سرکاری افسر کے دفتر کے طرف بغیر سفارش یا پرچی کے جانے کی جرات کرسکتا ہے؟ کتنے لوگ ہیں جو سرکاری دفاتر میں جاکر عزت بچا کر واپس آتے ہیں؟ کتنے افسران ہیں جن کے دفاتر عوام کے لیے کھلے ہوتے ہیں؟ کون سے ایسے افسران ہیں جن سے ملنے کے بعد عام آدمی یہ کہے کہ مجھے بڑے صاحب نے چائے پلائی تھی؟
وہ سب مجسمے بنے مجھے سن رہے تھے اور مجھے کوئی پتا نہیں چل رہا تھا کہ کہاں سے سوچ پیدا ہورہی تھی۔ کدھر سے الفاز ایک ترتیب اور انگارے کی طرح میرے منہ سے نکل رہے تھے۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے کہ جب ان سب نے ہار مانتے ہوئے کہا کہ واقعی یار سیاستدان ہم سے اچھے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سیاستدانوں کو برابھلا کہنا ایک فیشن بن گیا ہے وگرنہ یقین کریں ایک عام سا انسان ایک بڑے تاجر، بزنس مین، بڑے افسر اور حتیٰ کہ ایک بڑے عالم کو بھی نہیں مل سکتا۔ کسی فیکٹری کا ملزم ہو یا کسی بڑی دکان یا مارکیٹ کا مالک یا حاجی صاحب کا نوکر سب پر زبان بندی کا قانون لاگو نظر آتا ہے۔
مگر یہ ایک سیاستدان کا ہی حوصلہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص چاہے ریڑھی والا، دکاندار ہو، چھوٹا سرکاری ملازم ہو، کسی مدرسے کا طالب علم۔ کسی فیکٹری کا ملازم یا کسی زمیندار کا ہاری سب پورا ہفتہ، صبح دوپہر اور شام حتیٰ کہ عید کے دن بھی اپنے سیاستدان کو ان کے دفتر (ڈیرے) پر مل سکتے ہیں۔ آپ کو عزت و احترام بھی ملے گا اور عزت کے ساتھ چائے وغیر ہ بھی پیش کی جائے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ ان کے سخت مخالف بھی ہوں تو بھی وہ آپ کی خدمت بجالائیں گے۔
میں اپنی سول سروس کے تجربات کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اپنی ذات پر طنز کے نشتر برداشت کرکے اگر کوئی ہروقت چہرے پر مسکراہٹ لاکر عوام کی خدمت کے لیے ہر وقت دستیاب ہے تو وہی حقیقی مسیحا کہلاتا ہے اور آج کے دور میں یہ سارے اوصاف ایک سیاستدان کے روپ میں ہی ملتے ہیں۔تو بلاشبہ جب عام زندگی کے بقیہ جات کا مطالعہ کیا جاتے تو برملا بندہ پکار اٹھتا ہے کہ بلاشبہ سیاستدان ہی مسیحاہیں جو ہر دکھ درد میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
آج پھر ایک عرصہ بعد لاہور میں سرکاری گھر کے ٹیرس پر رات کی اس خنکی میں آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھ کر عمیرہ احمد کا ایک فقرہ ذہن میں گونج اُٹھا ہے کہ ”شدید اندھیرے میں انسان کو اتنی روشنی ہی بہت ہوتی ہے کہ جس سے وہ اپنا وجود پہنچان سکے“۔
اس معاشرے میں جہان کوئی کسی کی نہیں سنتا اور اندھیرے برجمان ہیں، وہاں پر ہمیں اپنے وجود اور ہستی کو دیکھنے کے لیے اگر کچھ روشنی مل سکتی ہے تو وہ صرف ان سیاستدانوں کے وجود سے ہی ممکن ہے اور ہمارے سیاستدان ہی حقیقی مسیحا ہیں۔
28 thoughts on “سیاستدان اک مسیحا”
Hundred millions statements.
خوبصورت تحریر
Ok
A good read
بہت اچھی تحریر ہے ۔
Right..nice wording
بہت ہی زبردست تحریر، دور ابتلاء میں اس قدر حقیقت پسند ہونا، میرے نزدیک ولی کامل ہونا ہے۔ میں خود حقیقت پسند ہوں بس اگر ہمارے سیاست دان منظم ہوکر کام کریں تو دنوں میں مادر وطن ترقی کرجائے گا
Democratic arguments
سر اور یہ جو سیاستدان پورا ملک کھا گئے اور ڈکار بھی نہ لی اس کے بارے میں تو کچھ کہیں
اگر سیاستدانوں نے ملک کو اس حال تک نہیں پہنچایا تو کس نے اس حال میں پہنچایا
Very nice
Good sir
زبردست جناب
بہت اچھی تحریر ہے
سر آپ نے تصویر کا صرف ایک اور نامکمل رخ دکھایا ، آپ نے جس مثال اور بندے کا تذکرہ کیا وہ یقیناً اس سیاستدان کا کوئی خاص بندہ ہوگا
اور سچ بات تو یہ ہے کہ عام سائل کی آواز نہ تو یہ سیاستدان سنتے ہیں اور نہ ہی بیوروکریٹ صاحبان ،الا ماشاءااللہ اور سیاستدان اکثر اوقات گھپلوں میں مصروف رہتے ہیں جبکہ بیوروکریٹ صاحبان تعیشات میں ، عام آدمی کی کوئی بات نہیں سنتا ، لوگوں کی زندگیاں اور خاندان تباہی ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے یہ جو افسر شاہی ہوتے ہیں ان کے پاس دو منٹ بھی نہیں ہوتے کہ یہ ذرا ویگو سے باہر آکر بندے کا مسئلہ ہی سن۔لیں حل کرنا تو دور کی بات ہے ہ
بہت زبردست اور دل کو چھو لینے والی تحریر
سیاست ایمان داری سے کی جاۓ تو یہ اجر عظیم ہے
اعلی تحریر
سیاستدان کو ایکدم کلین چٹ نہیں مل سکتی کہ یہ ٹھیک ہوں تو بیورو کریسی بھی ٹھیک ہو سکتی ہے
صاحب ہن او گلاں نہیں ریاں۔۔۔ سیاستدان پہلی بات تو یہ ہے ک ڈیرے پر ملتے بھی نہیں ہیں جو سہولیات آپ بتا رہے وہ سب سیاستدانوں کے جو قریبی اور زیادہ تعلقات والے لوگ ہوتے ہیں جن کو ہم بروکرز بھی کہہ سکتے ہیں اور دوسری طرف بیوروکریٹ کے دفاترز کا بھی تقریباً یہی حال ہے جو آفس میں ہوتے تو ہیں لیکن ہر کسی سے ملاقات نہیں ہو پاتی۔۔۔۔باقی مساٸل حل کروانے کےلیے کوٸ نہ کوٸ ریفرنس چاہیے ہوتا ہے
سر آپ نے تو دل خوش کر دیا حقیقت میں ہر انسان میں کچھ خامیاں ہوتی ہیں یہ سیاستدان اللہ کی بناء ہے خاص مخلوق ہیں انھیں دفتروں کے چکر لگانا ہر آتے جاتے کا ہاتھ پکڑ کر کام پوچھنا اور اپنے بس میں ہو یا نا ہو ایک دفع کوشش ضرور کرتے ہیںکسی نے ووٹ دیا ہے یا نہیں ہر ایک سے ہنس کر ملتے ہیں اور اس آس پر اسکے کام آتے ہیں کہ اگلی دفع جاؤں گا تو ضرور میری امداد کرے
گا باقی خامیاں تو ہر انسان میں ہوتی ہیں لیکن انکو اللہ میاں نے بڑا دل دیا ہوتا ہے اور منہ پر ہر ایک کی بات سننا اور سہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں
السلام علیکم !
عزت مآب ۔۔آپ نے بہت خوب صورت عنوان کو اپنا موضوع بحث بنایا یے۔ اللہ پاک آپ کے حلم میں علم میں مزید اضافہ فرمائے۔آمین
لیکن اصل میں وہی شئے معاشرہ میں اچھی لگتی ہے جس کے بارے میں عام رائے اچھی ہو چونکہ ہمارے معاشرہ کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہ سنی سنائی باتوں کو حقیقت کا روپ دے دیتا ہے اور سچ چیختا ہی رہ جاتا ہے۔ سیاستدان کی زندگی جتنی اجیرن ہوئی ہوتی ہے شاید کسی بھی اور شعبہ زندگی میں کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سیاست دان “لگانے اور کھانے” کے نظریہ پر کاربند ہیں اور اسی پر عوامی رائے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
Kamal ki comparison ki hi saab ny, officer shahi nizam khatam hona chahiye
ایک بہت ای عمدہ سول سرونٹ کی جانب سے بہت ای عمدہ تحریر۔۔۔
سر جی کیسے ھیں أپ؟ برادر أپکی کوٹ ادو پوسٹنگ کے دوران أپکو یاد ھوگا چوک سرور شہید میں عیساعیسائی سیکم کے تحت مسیحوں کو زرعی ذمینیں الاٹ ھوئیں اور چار سو لاٹیں قبضہ گروپ نے قبضہ کیا یہاں تک کے قبرستاقبرستانوں ۔چرچز کو بھی ننہیں چھوڑا۔کیا ملک پاکستان کیلکیلئے ۔ھمارے بڑوں کی قربیانیاں فضول تھیں۔کیا ملک میں ناانصاناانصافی کا پہاڑ ھمیں کتنا سہنا ھوگا۔اقلیتی کوٹہ میں اکنور کرنا۔۔کرسچن بیورکریٹ کی بےعزتی۔چوڑا کے القاب سے نواذنا۔ایم۔پی۔ایذ کو اسمپلی میں ذلیل کرنا۔سی۔ایم کا ٹائم نہ دینا۔فنڈزمیں مشکلات۔کوئی کرسچن یا اقلیتی گاگاؤں ننہیں جہاں ڈولپمنٹ کا کام ھوا ھو۔پلیز اس پہ بھی تحرتحریر لکھیں۔دعا گو وسیم شاکر کوٹ ادو
سیاست دانوں کے لئے ہمارے اندر بدگمانی کو آپ نے دور کیا۔
شکریہ ۔
لیکن ؟
Well said….
Great and true lines.
زبردست
نوید دیرتھ صاحب واحد اسسٹنٹ کمشنر بھیرہ رہے ہیں جنہیں عوام آج تک اچھے الفاظ میں یاد رکھے ہوئے ہے