ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے ہاں منہ بولے رشتوں کو سگے رشتوں سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ انسان کا دوسرے انسانوں سے رابطہ اپنی زبان کی وجہ سے استوار ہوتا ہے۔ اسلام میں اگرچہ منہ بولے رشتوں کو میراث کا حقدار نہیں ٹھہرایا جاتا لیکن مسلمان کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اگر مسلمان کسی کو اپنا بیٹا کہتا ہے تو پھر بیٹا سمجھتا بھی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بنایا تو پھر تمام دنیا انہیں زید بن محمد کے نام سے جانتی تھی۔ خالق کائنات بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اللہ پاک جانتے ہیں کہ میراث میں زبانی رشتوں کو حق ملنے سے انسانی معاشرے میں کئی قباحتیں نمود پا سکتی ہیں۔ہر انسان اپنے مال کے ایک مخصوص حصے کی وصیت کر سکتا ہے۔اس طرح اگر کوئی شخص زبانی رشتوں کو مال و متاع سے نوازنا چاہے تو طریقہ کار موجود ہے۔اصل حقیقی رشتے تو احساس کے رشتے ہوتے ہیں۔ہر رشتہ احساس ذمہ داری کا ہی نام ہے۔اسلامی اصول ہے کہ ہر شخص سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مرنے کے بعد نیک اولاد کے نیک اعمال کی بدولت انسان کے درجات بلند ہوتے رہتے ہیں۔اگر اولاد نیک نہ ہو تو زندگی موت سے بدتر بھی ہو سکتی ہے۔مشرقی لوگ فطرتی طور پر جذباتی ہوتے ہیں اور انسان کو جذباتی ہونا بھی چاہیے۔ انسان تو نام ہی جذبات کا ہے۔ فرشتوں کے جذبات نہیں ہوتے۔ انسان اگر اپنے جذبات کو صحیح طریقے سے استعمال کرے تو مسجود ملائکہ بن جاتا ہے اور اگر انسان کے جذبات فقط نفسانی ہوں تو انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ جسمانی رشتوں کو بائیو لوجیکل رشتے بھی کہا جاتا ہے۔ بعض والدین صرف بائیولوجیکل والدین ہوتے ہیں۔ اصل رشتہ تو احساس کا رشتہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات جسمانی رشتے ایسے گھاؤ دیتے ہیں کہ زبانی رشتے ہی ان کا مداوا کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے جد امجد جنت میں جب تک اکیلے تھے تو کسی ساتھی کی کمی محسوس کرتے تھے جن کا باوا آدم جنت میں اکیلے خوش نہیں رہا وہ دنیا میں رشتوں کے بغیر خوش نہیں رہ سکتے۔دنیا میں خوش رہنے کے لیے رشتے ہونا بھی ضروری ہے،رشتے بنانا اور رشتے نبھانا بہت ضروری ہے۔ کالم نگار اس لحاظ سے ہمیشہ خوش قسمت رہا کہ اللہ نے اسے بہترین جسمانی اور زبانی رشتے عطا کیے۔ روحانی رشتے بھی ہمیشہ اس کی دھاڑس بندھاتے رہے۔ اللہ تعالی نے ایک عالمہ فاضلہ والدہ نصیب فرمائی جو باقاعدہ مصنف ہیں۔ ماں تو نام ہی برکات کا ہے۔ والدہ کی برکات کی بدولت بہن بھائی بھی نصیب ہوئے۔نہ صرف بہن بھائی بلکہ ان کی اولادبھی۔اولاد بھی ایسی جو زمانے بھر میں لاثانی ہے، نیک اعمال کی برکات کی نشانی ہے۔ دارالحکومت کے ایلیٹ تعلیمی اداروں میں داخل بچے بچیاں مشرقی اور اسلامی ثقافت کا منہ بولتا نمونہ ہیں۔ صوم و صلوۃ کے پابند بچے بچیاں اپنی اسلامی روایات سے آشنا ہیں۔ بڑوں کا ادب کرتے ہیں۔گفتگو کی تمیز ہے۔زبان میں شائستگی اور لہجے میں خلوص کی مٹھاس ہے۔نئی نسل کے بچے جسمانی اور زبانی رشتے نبھانے کا وصف بخوبی جانتے ہیں۔صوم و صلوۃ اور خیرات کی طرف رجحان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انہیں روحانی رشتوں کی ضرورت کا بھی مکمل احساس ہے۔ہر نسل کو نئی نسل سےہمیشہ شکایات رہی ہیں۔ کچھ شکایت بجا ہوتی ہیں اور کچھ بےجا۔ نئی نسل کو جاننا ہمیشہ سے ہی انتہائی خوبصورت اور اہم تجربہ ہے۔دیکھا گیا ہے کہ جو انسان نوجوان لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے وہ پر امید رہتا ہے۔ خود کو جوان اور صحت مند محسوس کرتا ہے۔ جو مزہ بچوں کے ساتھ بچہ بننے میں ہے دنیا کے کسی بھی اور کام میں نہیں۔ رسول اللہ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیلنے کو بہت پسند کرتے تھے۔اللہ کے نبی ﷺ بچوں سے گفتگو پسند کرتے تھے۔ بچوں کو بھرپور وقت دیتے تھے۔اسلامی قوانین کے ماہرین کا خیال ہے کہ جو باپ بچوں کی اچھی تربیت کرتا ہے ،ان کا دوست بن کر رہتا ہےوہ خدا کی رحمت کا حقدار ہوتا ہے۔ اولاد کو بہترین انسان بنانا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ بچے بن جائیں۔بچوں کے ساتھ بچہ بننا نا صرف بچوں کیلیے مفید ہوتا ہے بلکہ بڑے بھی اس سے ان گنت فائدے حاصل کرتے ہیں۔ ۔ ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ڈپریشن کا بہترین علاج ہے۔ ہمارے بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں۔ ہمارے بچے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں، آنے والے کل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔سوشل میڈیا کے اس دور میں جب بچوں کو ورغلانے کے لیے ہر طرف دجالی قوتیں متحرک ہیں، انسان کو اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔ چند دن جو ماں جی کے بچوں کے بچوں کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا ان کا خوبصورت تاثر کبھی بھی ذہن سے محو نہیں ہو پائے گا۔ایک عظیم شاعر کے خیالات کا خلاصہ ہے کہ کسی اچھے انسان کے ساتھ گزارا ہوا ایک لمحہ انسان کو دائمی مسرت بخش سکتا ہے۔ اللہ تعالی جن لوگوں کو طیب لوگوں کا قرب بخشتا ہے وہ خوش قسمت ہوتے ہیں۔ ہر رشتے کا حق ادا کرنا بہت ضروری ہے۔اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنے رشتوں کا حق ادا کرنے لگے تو دنیا جنت بن جائے۔ انسان فقط جسم ہی نہیں، روح بھی ہے۔پائیدار روحانی رشتے استوار کرنا انسان کی ذہنی نشوونما بلکہ دنیا میں بقا کیلیے اشد ضروری ہے۔ ہماری محترم دوست کے خیال میں انسان کا سب سے سچا اور سُچا رشتہ اپنے خالق کائنات سے ہوتا ہے اور ہونا بھی اسی سے چاہیے۔ اللہ تعالی کی ہستی ہی ایسی ہستی ہے کہ جس سے جتنی بھی محبت کی جائے کم ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو ایسا بنایا اور ایسا نوازا ہے کہ اللہ تعالی سے سچے دل سے محبت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی سے محبت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع کی جائے۔ مسلمان جب تک پیغمبر ﷺ اپنی ذات سے بڑھ کر محبت نہ کرے ، مسلمان کا ایمان ادھورا رہتا ہے۔اسلامی سکالرز کا خیال ہے کہ مومنین کے جان و مال پر اللہ اور اللہ کے رسول کا حق ان کی ذات سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ایمان کی تکمیل کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے روحانی رشتہ اتنا مضبوط ہو کہ اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونا آسان ہو جائے۔رسول اللہ ﷺ نے تمام مسلمانوں کو اہل بیت سے محبت کرنے کی تلقین کی ہے۔پیغمبر آخرالزماں نے بار ہا امہ کو اہل بیت کے معاملے میں اللہ کا خوف دلایا۔اہل بیت کا کردار ایسا ہے کہ ان سے محبت کرنی نہیں پڑتی، ہو جاتی ہے۔سانحہ کربلا ایک ایسا سانحہ ہے جو ہر مسلمان کیلیے رنج و الم کا باعث ہے۔ مومن رقیق القلب ہوتا ہے۔دل کی سختی سے پناہ مانگنا اسلامی روایت ہے۔اہل بیت کے غم میں رونا برصغیر کے مسلمانوں کا شیوہ ہے۔ جھنگ کے لوگ جب بھی ملتے ہیں ، سلام دعا کے بعدایک بات ضرور کہتے ہیں:” اللہ تعالی آپ کو غم حسین کے سوا کوئی غم نہ دے”۔اہل بیت سے امت کا روحانی رشتہ صدیوں سے ہے۔ اہل بیت پر درود بھیجے بغیر ہماری نماز مکمل نہیں ہوتی۔اہل بیت سے روحانی رشتہ ہماری جینیاتی ساخت کا حصہ ہے، صدیوں کا قصہ ہے۔ آئیے! اللہ تعالی سے دعا مانگے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے رشتوں سے نوازے اور رشتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اس سے پہلے کہ موت کا فرشتہ آئے، اگر کوئی رشتہ آپ سے ناراض ہے، اسے منا لیں۔ایک دوسرے کا مان رکھنا ہی انسانیت ہے۔ رشتہ جسمانی ہو، زبانی یا روحانی، نعمت ہوتا ہے۔نعمتوں کا حق ادا کیا جاتا رہے تو نعمتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں ورنہ جو شکر نہیں کرتے انکی دنیا اور آخرت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ خود کو خطرات سے بچائیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو بھی غم حسین کے سوا کوئی غم نہ دے۔ اٰمین۔
