Premium Content

ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے

Print Friendly, PDF & Email

ناصر کاظمی کے کلام میں جہاں ان کے دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں، ایک بستی سے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرتِ تعمیر ملتی ہے، وہیں وہ اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل  نہیں رہتے۔ ان کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری دونوں میں اک عجیب طرح کی سحر انگیزی پائی جاتی ہے۔ اپنی روائیتی لفظیات کے باوجود  انھوں نے غزل کو اپنی طرز ادا کی برجستگی اور ندرت سے سنورا۔ انھوں نے نظریاتی میلانات سے بلند ہو کر شاعری کی اس لئے ان کا میدان شعر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور متنوع ہے جس میں بہرحال مرکزی حیثیت عشق کی ہے۔ ان کی تمام شاعری اک حیرت کدہ ہے جس میں داخل ہونے والا دیر تک اس کے سحر میں کھویا رہتا ہے۔

ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے
دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے

عجب ہے رات سے آنکھوں کا عالم
یہ دریا رات بھر چڑھتا رہا ہے

سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل
مگر وہ شہر جو پیاسا رہا ہے

وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

کسے ڈھونڈوگے ان گلیوں میں ناصرؔ
چلو اب گھر چلیں دن جا رہا ہے

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos