شعر و ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام محسن نقوی 5 مئی 1947ء میں سید چراغ حسین شاہ کے ہاں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ والدین نے ان کا نام غلام عباس رکھا۔
محسن مکمل عصری شعور کے ساتھ شعر کہتے تھے۔ معاشرتی اُتار چَڑھاؤ بھی ان کی شاعری کا اہم موضوع تھا۔ محسن نقوی کو شاعرِ اہلِ بیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کربلا کے بارے میں ان کی شاعری کو پورے پاکستان میںایک مقبولیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کوہر جگہ قبول کیا جاتا ہے اور بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔
محسن کی شاعری میں صرف پیار و محبت اور لب و رُخسار کی باتیں شامل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کے ان حکمرانوں کے خلاف بھی لکھا تھا جو اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے۔محسن نقوی نے فلم ’’بازاِ حسن‘‘ کے لیے ایک گیت ’’لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے‘‘ لکھا اور بہترین فلمی گیت نگار کا ایوارڈحاصل کیا۔
ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے
مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے
تمام شب جہاں جلتا ہے اک اداس دیا
ہوا کی راہ میں اک ایسا گھر بھی آتا ہے
وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے گا چھوڑ جائے گا
مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے
اجاڑ بن میں اترتا ہے ایک جگنو بھی
ہوا کے ساتھ کوئی ہم سفر بھی آتا ہے
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
جہاں لہو کے سمندر کی حد ٹھہرتی ہے
وہیں جزیرۂ لعل و گہر بھی آتا ہے
چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا
تو زیر بحث مقام بشر بھی آتا ہے
ابھی سناں کو سنبھالے رہیں عدو میرے
کہ ان صفوں میں کہیں میرا سر بھی آتا ہے
کبھی کبھی مجھے ملنے بلندیوں سے کوئی
شعاع صبح کی صورت اتر بھی آتا ہے
اسی لیے میں کسی شب نہ سو سکا محسنؔ
وہ ماہتاب کبھی بام پر بھی آتا ہے