ایران پر امریکی مفادات کی حمایت: پاکستان کے لیے ایک خطرناک تزویراتی غلطی

[post-views]
[post-views]

بلاول کامران

پاکستان اس وقت خارجہ پالیسی کے ایک نہایت نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ عالمی سطح پر دو واضح تزویراتی بلاکس ابھر رہے ہیں: ایک جانب چین، روس اور خطے کے اہم اسلامی ممالک جیسے ایران اور پاکستان ہیں، جب کہ دوسری طرف امریکہ، مغربی طاقتیں اور اسرائیل موجود ہیں جن کا مقصد ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا نہایت اہم ہے کہ وہ اپنے دیرینہ اور علاقائی اتحادیوں کے ساتھ کھڑا رہے یا امریکی دباؤ میں آ کر ایران کے خلاف صف بندی کرے۔

ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ 960 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف مذہبی، ثقافتی اور لسانی تعلقات رکھتے ہیں بلکہ اقتصادی، توانائی، اور خطے میں استحکام کے مشترکہ مفادات بھی رکھتے ہیں۔ چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں ایران ایک اہم توانائی اور ٹرانزٹ مرکز ہے جو پاکستان، وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کو ملاتا ہے۔ روس بھی خلیجی خطے میں اپنی تزویراتی گہرائی کے لیے ایران کے ساتھ تعاون کرتا آیا ہے۔ ان تمام تناظرات میں پاکستان کے لیے ایران کے ساتھ تعاون، چین کے ساتھ گہرے تعلقات کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے اور خطے میں توازن کی حکمت عملی کا اہم جزو ہے۔

دوسری طرف، امریکہ اور اسرائیل ایران کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کا ہدف ایران کو تنہا کرنا، اس پر اقتصادی پابندیاں لگانا، اور اس کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے عسکری کارروائی کی دھمکیاں دینا ہے۔ اسرائیل کے نزدیک ایران ایک وجودی خطرہ ہے جو حزب اللہ جیسے گروپوں کی حمایت کرتا ہے اور جوہری طاقت بننے کے قریب ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان جیسے ہمسایہ ملک کے مفادات ان پالیسیوں سے میل نہیں کھاتے۔

اگر پاکستان ایران کے معاملے پر امریکہ اور اسرائیل کے موقف کی تائید کرتا ہے تو یہ ایک بڑی تزویراتی غلطی ہو گی۔ اولاً، اس کا سب سے بڑا نقصان چین کے ساتھ تعلقات کو ہو گا، کیونکہ چین ایران کو کا اہم ستون سمجھتا ہے۔ ایران کو تنہا کرنے کی کسی بھی کوشش کو چین پاکستان پر بداعتمادی کی نظر سے دیکھے گا، جس سے متاثر ہو سکتا ہے۔ دوم، ایران سے تعلقات خراب کرنے کی صورت میں سرحدی سلامتی، فرقہ وارانہ کشیدگی اور خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کی سفارتی گنجائش کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ سوم، پاکستان اسلامی دنیا میں اپنے مقام اور اثر و رسوخ کو بھی کھو بیٹھے گا، خصوصاً اُن ممالک میں جو مغرب کی بالادستی کو چیلنج کرتے ہیں۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ ایک غیرمستقل مزاج اسٹریٹیجک شراکت دار ہے۔ وہ اپنے مفادات کے لیے قلیل مدتی معاہدے کرتا ہے اور جب اس کے مقاصد مکمل ہو جائیں تو وہ اتحادیوں کو تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ عراق، لیبیا اور افغانستان کی مثالیں سب کے سامنے ہیں، جہاں امریکی مداخلت کے بعد تباہی اور عدم استحکام نے جنم لیا۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایک خودمختار، مفاد پر مبنی خارجہ پالیسی اپنائے۔ اس کی سلامتی، معیشت اور علاقائی ہم آہنگی کا دارومدار چین، ایران، ترکی، وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس جیسے ہمسایہ اور قریبی ممالک سے تعاون پر ہے۔ امریکہ کی ایران مخالف مہم کا حصہ بننے سے پاکستان اپنے ان تمام اسٹریٹیجک شراکت داروں سے دور ہو جائے گا اور ممکنہ طور پر ایک بڑے علاقائی تنازع کا حصہ بن سکتا ہے۔

آخر میں، پاکستان کے لیے یہ فیصلہ نہایت اہم ہے کہ وہ خطے میں قیام امن، علاقائی تعاون اور خودمختاری کو ترجیح دے۔ ایران کے خلاف امریکی حکمت عملی کی پیروی نہ صرف پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی بلکہ اسے طویل مدتی خارجہ تنہائی کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔ امریکہ کے مفادات کی خاطر چین، ایران اور دیگر علاقائی اتحادیوں کو چھوڑنا ایک ایسی اسٹریٹیجک غلطی ہو گی جس کی پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos