جب ہم شہید ہوتے ہیں، تو نہ کہنا ہم مر گئے، اصل میں تم مر چکے ہو: ایک فلسطینی کی مسلم دنیا سے پکار

[post-views]
[post-views]

مبشر ندیم

ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں دنیا فکری، سیاسی اور تہذیبی تضادات میں منقسم ہو چکی ہے۔ اصول بدل چکے ہیں، اور سفارتکاری مفاہمت یا انکار کے درمیان ایک دائمی کشمکش میں تبدیل ہو گئی ہے۔ عالمی نظام توازن کھو چکا ہے اور نئی صف بندیاں، نئے اتحاد، اور بدلتے مفادات نئی تعریفیں تشکیل دے رہے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کی جنگ اس نئے عالمی منظرنامے کا مظہر ہے، جہاں کچھ ریاستیں موقف اختیار کرتی ہیں، کچھ خاموش رہ کر سفارتی گنجائش بناتی ہیں، اور باقی اپنی خامشی کی آڑ میں خود کو محفوظ سمجھتی ہیں۔

ایسے میں امریکہ، جو خود کو عالمی رہنما سمجھتا ہے، اقوامِ عالم کے طے کردہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے۔ پیرس معاہدے سے انخلا، جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق معاہدات جیسے اور کی پامالی، جیسے اداروں کے قوانین کی توہین، اور سب سے بڑھ کر اقوامِ متحدہ کی فلسطینی نسل کشی رکوانے کی قرارداد پر واحد ویٹو، اس کی عالمی اخلاقی حیثیت کو مشکوک بنا چکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کو معصوم بچوں کے قتلِ عام کی حمایت کرنے میں کیا مجبوری لاحق تھی؟

یورپ کی حالیہ سیاسی قیادت، یعنی اسٹارمر، میکرون اور مرز، جنہوں نے جمہوریت کو ایک مخصوص طبقاتی مفاد میں محدود کر دیا ہے، وہ عوامی مظاہروں اور فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کو یکسر نظر انداز کر کے مغربی منافقت کو عیاں کرتے ہیں۔ نیو-کنز، جیسا کہ لِنڈسے گراہم، سفارتکاری کو دھمکیوں میں بدل چکے ہیں، اور ٹرمپ کی ایران سے متعلق سیاست‌ها ‘میری بات مانو، ورنہ فنا ہو جاؤ’ جیسے رویے کا عکس ہیں۔ جبکہ یوکرائن کے مزاحیہ اداکار صدر، زی لنسکی، امریکہ کے مالیاتی اور عسکری سہارے پر روس کے خاتمے کے خواب دیکھتے ہیں۔

یہی صورتحال اسرائیل کی ہے، جو امریکی سرپرستی میں پورے خطے کو اپنی عسکری قوت کے ذریعے زیر کرنے میں مصروف ہے۔ دنیا حیران و پریشان ہے کہ اسرائیل کی ’بھوک‘ آخر کب ختم ہو گی، جبکہ دوسری طرف مغرب کے بعض طبقات اسرائیل کے اقدامات پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ دنیا تقسیم ہو چکی ہے۔

اسرائیل کا قیام بذاتِ خود ایک غیرقانونی عمل تھا، جہاں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے ایک مخصوص مذہبی ریاست قائم کی گئی۔ صیہونی نظریہ، جو ’وعدہ شدہ سرزمین‘ کے قدیم عبرانی دعوے پر مبنی ہے، نیل سے فرات تک کے علاقہ پر قبضے کو اسرائیل کی نظریاتی بنیاد بناتا ہے۔ اسرائیلی پرچم پر موجود نیلی لکیریں اسی عظیم اسرائیل کے جغرافیائی خواب کی علامت ہیں۔ ہالی وُڈ، وال اسٹریٹ، اور بین الاقوامی میڈیا میں صیہونی اثر و رسوخ کے ذریعے اب نہ صرف امریکی پالیسی پر گرفت ہے بلکہ عالمی بیانیہ بھی ان کے زیر اثر ہے۔

میں جنرل ویسلے کلارک کے انکشافات کہ امریکہ، اسرائیل کی ایما پر، افغانستان کے بعد سات مسلم ممالک پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، اس وسیع منصوبے کی جھلک دکھاتے ہیں۔ لیبیا، عراق، شام، لبنان، سوڈان، صومالیہ اور ایران—یہ وہ ممالک تھے جو ’گریٹر اسرائیل‘ کی راہ میں رکاوٹ سمجھے گئے۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت اب ایران کو ہدف بنایا گیا ہے، جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی اسرائیل اور بھارت کے لیے ایک مستقل خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

یہ جنگ محض اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں بلکہ یہ عالمی اقتصادی نظام کی کشمکش کا بھی مظہر ہے۔ یورپی یونین، امریکہ کا ’بیٹر ورلڈ‘ منصوبہ، اور چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوعالمی طاقتوں کے درمیان نئی اقتصادی و تزویراتی جنگ کی بنیاد ہیں۔ دنیا دو واضح بلاکس میں تقسیم ہو چکی ہے۔

یہ تناؤ اب روس اور چین کی طرف سے ردعمل کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ کی بھارت کو اسرائیلی امداد کے ساتھ پاکستان کے خلاف حملے پر اکسانا، اور اسرائیل کا ایران پر حملہ، اسی بڑے کھیل کا حصہ ہیں۔ آئی اے ای اے کی جانب سے ایران کے خلاف اچانک الزامات اور اس کے 24 گھنٹوں کے اندر اسرائیلی حملہ، محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ ہے۔ ایران کی جوابی کارروائی نے اسرائیل کو حیرت زدہ کر دیا اور اب امریکہ اپنے بحری بیڑوں اور ایندھن بردار جہازوں کے ذریعے دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ جنگ بندی کروا سکے۔

یہ صورت حال اگر وسیع پیمانے پر جنگ میں تبدیل ہوئی، تو چین اور روس کا ردعمل متوقع ہے، اور دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو اس نئے عالمی تناظر میں نہایت محتاط اور مؤثر حکمتِ عملی اختیار کرنی ہو گی۔

ایران پر اسرائیلی حملے کے پیچھے اصل مقصد نہ صرف ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنا ہے بلکہ خطے میں طاقت کا توازن مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں کرنا ہے۔ عراق، لیبیا، شام، اور مصر جیسے ممالک میں پہلے ہی امریکہ اور اسرائیل نے ’ریجیم چینج‘ کا تجربہ کیا ہے، اور اب ایران اور پاکستان اس منصوبے کے اگلے ہدف ہیں۔

پاکستان کو فوری طور پر اپنے داخلی انتشار کا خاتمہ کر کے قومی اتحاد کو فروغ دینا ہو گا۔ سیاسی فیصلہ سازی کو عوامی امنگوں سے جوڑنا، ادارہ جاتی حکمرانی کو مستحکم کرنا، میرٹ، انصاف، اور تعلیم کو قومی ترجیح بنانا ناگزیر ہے۔ یہ داخلی استحکام ہی بیرونی خطرات کے خلاف سب سے بڑی ڈھال بن سکتا ہے۔

پاکستان کو ایران، ترکی، ملائیشیا، اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے ساتھ مل کر ایک نیا اسلامی بلاک تشکیل دینا چاہیے، جو خودمختار، باوقار اور متوازن حکمتِ عملی کا حامل ہو۔ ایسے اسلامی ممالک جو خود کو مغرب کے رحم و کرم پر چھوڑ چکے ہیں، ان کی ’امّت‘ میں شمولیت کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ جیسے غیر مؤثر ادارے کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان، بطور ایٹمی طاقت، چھٹی بڑی فوج، اور دوسری بڑی مسلم آبادی رکھنے والے ملک، اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کا فیصلہ کن ملک ہے۔ چین اور روس کے ساتھ مضبوط تعلقات اور میں شمولیت پاکستان کو ایشیا پیسفک آرڈر میں کلیدی مقام دلا سکتی ہے۔

فلسطینی شہید کے الفاظ—’’جب ہم مارے جائیں، تو نہ کہنا کہ ہم مر گئے… اصل میں تم مر چکے ہو‘‘—محض ایک دکھ بھری آہ نہیں، بلکہ اس پوری منافقانہ عالمی ترتیب کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ یہ وقت ہے کہ مسلمان اقوام جاگیں، خود کو پہچانیں، اور ایک خودمختار، باوقار اور متحد عالمی کردار ادا کریں۔ دنیا کا نیا نظام ترتیب پا رہا ہے، اور پاکستان کو اس میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا ہو گا—ورنہ تاریخ ایک اور ضائع شدہ موقع کے طور پر یاد رکھے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos