امام حسینؑ کی آفاقی قیادت اور استعماری منافقت

[post-views]
[post-views]

محمد زبیر

تاریخِ انسانی میں قیادت کے دو بڑے تصورات ہمیشہ سے متصادم رہے ہیں۔ ایک طرف وہ قیادت جو طاقت، حربوں اور مفاد پرستی کو اپنا شیوہ بناتی ہے، جس کی عظیم ترین نمائندگی میکاولی کے فلسفے نے کی، اور دوسری طرف وہ قیادت جو اصولوں، صداقت اور انسانی وقار کو ہر چیز پر ترجیح دیتی ہے جس کی کامل ترین مثال امام حسین علیہ السلام کی شخصیت ہے۔ آج کے دور میں جب قیادت کے نام پر میکاولین حربے اور مادّیت پرستی غالب نظر آتی ہے، امام حسینؑ کا پیغام ایک ایسے متبادل کے طور پر سامنے آتا ہے جو نہ صرف مذہبی تقدس کس حامل ہے بلکہ جدید ترین قیادتی نظریات پر بھی بدرجہ اتم پورا اترتا ہے۔ ایک طرف تاریخی اور اخلاقی تناظر، اور دوسری طرف جدید قیادتی نظریات کے ساتھ اس کا تقابلی جائزہ کچھ یوں ہے: میکاولی کا مشہور قول ہے کہ “مقصد ذرائع کو جواز فراہم کرتا ہے”۔ اس فلسفے کے تحت طاقت حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ جائز ہے، خواہ وہ جھوٹ ہو، فریب ہو یا تشدد۔ جدید دور کی سیاست اور کاروباری دنیا میں یہ نظریہ واضح نظر آتا ہے جہاں کامیابی کا پیمانہ صرف نتائج ہوتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی طریقے سے حاصل کیے گئے ہوں۔ لیکن امام حسینؑ نے کربلا کے میدان میں اس کے بالکل برعکس نظریہ پیش کیا: “عظیم مقصد کے ذرائع بھی پاک اور جائز ہونے چاہئیں”۔

یزید کی بیعت سے انکار درحقیقت اسی اصول کا اعلان تھا۔ امامؑ نے واضح کیا کہ طاقت حاصل کرنا مقصد نہیں، بلکہ مقصد کی پاکیزگی ہی اصل کامیابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے یزید کے پیش کردہ تمام تر لالچوں کو ٹھکرا دیا، کیونکہ آپ کے نزدیک اصولوں سے سمجھوتہ کرنا شکست سے بھی بدتر تھا۔ جدید دور میں جب سیاست اور کاروبار دونوں میدانوں میں اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، امام حسینؑ کا یہ موقف ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کامیابی کا اصل پیمانہ دولت یا اقتدار نہیں، بلکہ اخلاقی بلندی ہے۔ آج کے لیڈر اکثر مفاد پرستی، عارضی کامیابیوں اور دھوکہ دہی کے ذریعے اپنا تسلط قائم رکھتے ہیں، لیکن امام حسینؑ نے کربلا کے میدان میں یہ ثابت کیا کہ حقیقی قیادت وہ نہیں جو لوگوں کو خوف زدہ کرے، بلکہ وہ ہے جو ان کے دلوں کو جیت لے۔ آپ کے اصحاب کی والہانہ وفاداری، جنہوں نے جان دے دی مگر اپنے امام کو تنہا نہ چھوڑا، درحقیقت قیادت کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ یہ وہ قیادت تھی جو ڈر اور جبر سےنہیں، بلکہ پیار اور اعتماد سے قائم ہوئی۔ امام حسینؑ کی قیادت کو جدید قیادتی نظریات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حیرت انگیز طور پر ان تمام نظریات پر بھی سبقت لیتے دکھائی دیتی ہے۔ قیادت کا قلب ماہئیت کردینے والا نظریہ کہتا ہے کہ ایک سچا لیڈر اپنے پیروکاروں میں نئے نظریات، بلند حوصلہ اور اخلاقی تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ امام حسینؑ نے کربلا کے ذریعے امت کو غفلت سے بیدار کیا اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا جذبہ پیدا کیا۔

آپ کا یہ قول *”إنّی لم أخرج أشراً ولا بطراً… وإنّما خرجت لطلب الإصلاح في أمّة جدّي (میں نہ تکبر کے لیے نکلا ہوں اور نہ فساد کے لیے… بلکہ میں اپنے نانا ﷺ کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں) درحقیقت قلب ماہئیت کردینے والی قیادت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس طرح قیادت کے ایک اور نظریے کے مطابق لیڈر طاقت کا نہیں، خدمت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ امام حسینؑ نے اپنے ساتھیوں کو موقع دیا کہ وہ چلے جائیں، کیونکہ آپ کی قیادت کا مقصد ان پر احسان کرنا یا انہیں مجبور کرنا نہیں تھا۔ آپ کا یہ فرمان “اگر تم چلے جاؤ تو تم پر کوئی الزام نہیں، رات کا اندھیرا غنیمت جانو”بے لوثی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

اصولی قیادت کا نظریہ کہتا ہے کہ لیڈر کو اپنے اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے۔ امام حسینؑ کا یہ قول “مثلی لا یبایع مثلہ” (میرے جیسا شخص یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا) کی کامل تصویر ہے۔ امام حسین علیہ السلام میں اخلاقی قیادت بھی اوج پر ہے۔ آپ نے یزیدی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے انسانیت کے شعور کو جگایا۔ آپ کا یہ فرمان “اگر تمہارا دین نہیں، تو کم از کم آزاد مرد تو بنو!” اخلاقی جرأت کی عظیم مثال ہے۔ پس امام حسینؑ کی قیادت ایک آفاقی نمونہ پیش کرتی ہے۔ یہ صرف ماضی کا واقعہ نہیں، بلکہ ہر دور کے لیے ایک زندہ نظریہ ہے۔ آج کے دور میں جب قیادت کے نام پر کرپشن، مفاد پرستی اور عوامی دھوکہ دہی عام ہو چکی ہے،

امام حسینؑ کا پیغام ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ حقیقی کامیابی اصولوں پر ڈٹ جانے میں ہے۔ آپ نے ثابت کیا کہ قیادت طاقت سے نہیں، کردار سے ہوتی ہے۔ کربلا کوئی واقعہ نہیں، ایک انقلاب ہے۔ یہ صرف ماضی کی داستان نہیں، بلکہ مستقبل کا پیغام ہے۔ “ہر زمین کربلا ہے، اور ہر دن عاشورا” یہی وہ سبق ہے جو امام حسینؑ نے ہم سب کے لیے چھوڑا ہے۔ امام حسینؑ اپنے عمل سے ایک جامع نظریہ قیادت پیش کرتے ہیں جو نہ صرف تاریخ کا سبق ہے، بلکہ جدید قیادتی نظریات کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت ہر دور میں انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بنی رہے گی۔ آج مشرقِ وسطیٰ کی زمین پر غزہ میں قتلِ عام ہے۔ بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا جارہا ہے۔ یہ پوری انسانیت کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت کرے، ورنہ تاریخ ہر اس آنکھ کو موردِ الزام ٹھہرائے گی جس نے ظلم کو خاموشی سے دیکھا۔ آج سنت امام حسین علیہ السلام کے احیا کی ضرورت ہے۔ تاکہ عالمی استعمار اور یزیدی طاقتوں کو للکارا جائے اور فلسطینیوں کو ان کا حق واپس دلایا جائے۔ امت تماشائی نہ بنے بلکہ لبیک یا حسین کہہ کر غزہ کے مظلوموں کی نصرت کرے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos