ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے اور باشعور افراد بھی اکثر مقامات پر اپنے معیار کا سودا کوڑیوں کے داموں کرنے میں گریز نہیں کرتے۔ الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتوں کی مہمات ہوں یا حزب اختلاف کی جماعتوں کے دھرنے، چند روپوں کی خاطر اپنا ووٹ بیچنا ہو یا سوشل میڈیا پر کسی غیر ضروری بات کو ٹاپ ٹرینڈ بنانا ہو، ہم ہر جگہ دستیاب پائے جاتے ہیں۔
یوں تو معاشرے میں ایسے متعدد واقعات پیش آتے رہتے ہیں مگر میں آج جس مسئلے پر گفتگوکرنا چاہتا ہوں وہ سوشل میڈیا، بالخصوص ٹویٹر پر بننے والے غیر ضروری ٹرینڈز ہیں جن کا نہ تو کوئی مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی معیار
ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر شخص ٹویٹر پر چلنے والے ٹرینڈز کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پالیسی ساز ادارے، بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں، ٹرینڈز پینل پر نظر رکھتی ہیں، تاکہ مختلف ممالک میں ہونے والے حالات و واقعات سے باخبر رہ کر نئی حکمت عملی تشکیل دے سکیں۔ اس جدید دور میں کسی بھی قوم کا معیار وہاں پر چلنے والے ٹرینڈز سے پتہ چلتا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ بھی اس معاشرے میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے کےلیے بھرپور کوشش کرے۔ پاکستان ایک عرصے سے دنیا کی تنقید کا نشانہ بن رہا ہے، جسے ہمارے سوا کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا۔
بسا اوقات معلومات لینے کےلیے ٹویٹر کے ہیش ٹیگ (#) پینل پر نظر ڈالیں تو لوگوں نے ایسے ایسے ٹویٹس بھی اس ہیش ٹیگ پر ڈالے ہوتے ہیں جن کا سرے سے اس ہیش ٹیگ سے تعلق ہی نہیں ہوتا۔ یوں مطلوبہ معلومات ملے نہ ملے مگر بلڈپریشر کو بڑھنے کا جواز ضرور مل جاتا ہے۔ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ٹاپ ٹرینڈنگ میں شامل ہیش ٹیگز پر کیے گئے ٹویٹس کو لائیکس یا پھر ری ٹویٹ ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور اگر اور کچھ نہ بھی ملے تو کم از کم کچھ ویوز تو مل ہی جائیں گے۔ یہ تو سراسر بے ایمانی ہوئی اور کلاسیفائیڈ معلومات ڈھونڈنے والے کے وقت کا ضیاع۔
میں نے ہیش ٹیگ سے درست معلومات کی امید ہی چھوڑ دی ہے آج ہی کی بات لے لو، میں ٹاپ ٹرینڈنگ پر ہیش ٹیگ پیٹرول پرائس دیکھا تو چیک کرنے پر دس میں سے ایک پوسٹ پر کچھ اندازہ ہوا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھنے والی ہے۔ باقی پوسٹوں پر فولو اور ری ٹویٹ کی بھیک ہی مانگی گئی تھی۔پتہ نہیں آج کل پڑھے لکھے باشعور لوگ سوشل میڈیا پر بھکاری کیوں بنے ہوئے ہیں خیر اس پر ہم پھر کسی دن بات کریں گے۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم کیا ہم ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال سے واقف ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو یقیناً بحث طلب ہے۔ ہمیں ٹیکنالوجی کے مثبت اور تعمیری استعمال کےلیے تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ ہی دیکھ لیجیے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو مہنگائی اور وسائل کی کمی کے اس دور میں لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے روزگار کے حصول کے طریقے بتانے کے بجائے فین فالوونگ کے مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ ابھی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں ایک موصوف لکھتے ہیں کہ میری پوسٹ کے نیچے کومنٹس کریں اور اپنے فالوورز بڑھائیں۔ اور چند لوگوں کی معصومیت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ وہ دھڑا دھڑ کومنٹس کیے جارہے ہوتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا کرنا بے سود ہے، ہر بار دوسروں پر اس طرح اعتماد کرلیتے ہیں کہ شاید اس بار کوئی جادوئی طریقہ ہم پر بھی چل جائے۔ مگر آخر میں انہیں کچھ نہیں ملتا۔
یہ بھی پڑھیں: https://republicpolicy.com/warzish-k-faiday-aur-insani-sehat/
ایلون مسک ٹویٹر پر آزادی اظہار رائے سے متعلق نہایت پرجوش نظر آتے ہیں۔ جب انہوں نے ٹویٹر کو 44 بلین ڈالر میں خریدا تو انہوں نے آتے ساتھ ہی ٹویٹر کے سابق بھارتی سی ای او پراگ اگروال اور بہت سے دوسرے ورکرز کو بھی نکال دیا اور ٹویٹر کی بہت سی پالیسیوں کو بھی تبدیل کردیا، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ ٹویٹر پر ’’بلیو ٹِک‘‘ جو صرف نامور لوگوں کو ملا کرتا تھا، اب ہر ایک کو مل سکتا ہے، جس کےلیے انہیں ہر مہینے 7.99 ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ ایلون مسک چاہتے ہیں کہ ٹویٹر کو مزید پھیلایا جائے اور اچھا ریونیو بھی حاصل کیا جاسکے۔ مگر یہ تو مستقبل میں ہی علم ہوگا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں اور کب تک وہ اس پرندے کو آزاد رکھ سکیں گے؟ کیونکہ جہاں فائدہ ہوتا ہے وہاں نقصان کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ اس پرندے کی آزادی کے بعد سے بہت سے منفی لوگوں نے اس کا غلط استعمال کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف خواتین کو غلط الفاظ کا نشانہ بنانے کی کوشش کی بلکہ اس کے بعد سے تو گالم گلوچ بھی اکثر ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ نظر آنے لگی ہے۔
اس معاشرے میں مثبت اور منفی دو طرح کے لوگ آباد ہیں۔ مثبت لوگ ہمیشہ خیر کا پہلو تلاش کرتے مگر منفی لوگ اکثر اس آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگ جاتے ہیں جو اس آزادی کے خاتمے کا باعث بنتی ہے۔ ایلون مسک اس ایپ میں بہت سی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ 2028 میں ٹویٹر کا ریونیو چھبیس بلین ہو اور اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد نو سو اکتیس ملین تک پہنچ جائے مگر 2021 میں دی جانے والی رپورٹ کے مطابق ابھی تک اس کا ریونیو صرف پانچ بلین ہے اور صرف دو سو سترہ ملین لوگ اسے استعمال کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس میں ٹک ٹاک جیسی خصوصیات لا کر اسے مزید پھیلانا چاہتے ہیں، جس کے متعلق انہوں نے 31 اکتوبر 2022 کو ایک پول ٹویٹ بھی کیا تھا اور صارفین سے پوچھا تھا کہ کیا وہ Vine App کو دوبارہ ٹویٹر کے ساتھ دیکھنا چاہیں گے؟ یہ ایک پرانی ایپ ہے جس کی خصوصیات بھی ٹک ٹاک ہی کی طرح ہیں، اس میں تقریباً چھ سیکنڈ کی ویڈیو اپلوڈ کی جاسکتی ہے۔
اگر ایسا ہوا تو ٹویٹر جو کہ ایک پروفیشنل ایپ ہے، بہت جلد اپنا معیار کھو دے گی۔ ایلون مسک اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں مگر میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ پاکستانی قوم کو ٹویٹر کے بامقصد استعمال کی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔