Premium Content

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

Print Friendly, PDF & Email

اقبال کی شاعری تصوّرات کی شاعری ہے۔ لیکن جو صفت تصوّرات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا  تقاضہ ہے کہ افکار کے حسّی متبادل تلاش کئے جائیں تا کہ افکار کو جذبہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک فکر نہ رہ کر اک حسّی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور اک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کر لے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے۔

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو ديکھنا تو ديدہء دل وا کرے کوئی

منصور کو ہوا لب گويا پيام موت
اب کيا کسی کے عشق کا دعوي کرے کوئی

ہو ديد کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے ديکھنا يہی کہ نہ ديکھا کرے کوئی

ميں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن
ديکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

عذر آفرين جرم محبت ہے حسن دوست
محشر ميں عذر تازہ نہ پيدا کرے کوئی

چھپتی نہيں ہے يہ نگہ شوق ہم نشيں
پھر اور کس طرح انھيں ديکھا کر ے کوکوئی

اڑ بيٹھے کيا سمجھ کے بھلا طور پر کليم
طاقت ہو ديد کی تو تقاضا کرے کوئی

نظارے کو يہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے ديکھا کرے کوئی

کھل جائيں، کيا مزے ہيں تمنائے شوق ميں
دو چار دن جو ميری تمنا کرے کوئی

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos