ڈھاکہ: نگران حکومت کی جانب سے بنائے گئے بنگلہ دیش کے قومی اتفاق رائے کمیشن نے پیر کو اعلان کیا کہ گزشتہ سال کی عوامی بغاوت کے بعد شروع کی گئی جمہوری اصلاحات پر سیاسی جماعتیں اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام کا آغاز اگست 2024 میں اُس وقت ہوا جب سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو ایک طلبہ تحریک کے نتیجے میں 15 سالہ اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
نگران حکومت کے چیف ایڈوائزر، نوبیل انعام یافتہ محمد یونس، جو اس وقت 84 برس کے ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ناکارہ ریاستی نظام وراثت میں ملا، جس کی اصلاح کے لیے چھ کمیشن قائم کیے گئے، جن کی نگرانی قومی اتفاق رائے کمیشن کر رہا ہے۔
کمیشن کے نائب صدر، پروفیسر علی ریاض کے مطابق، 45 اجلاسوں اور 166 تجاویز پر بحث کے باوجود 38 سیاسی جماعتیں اہم آئینی نکات پر متفق نہیں ہو سکیں۔ ان نکات میں وزیرِاعظم کی مدت، صدر کے انتخاب کا طریقہ، اور نگران حکومت کی تشکیل شامل ہیں۔
ریاض نے بتایا کہ عوامی رائے کے لیے 46,000 خاندانوں پر مشتمل ایک قومی سروے کرایا جائے گا اور بات چیت کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے گا۔
ایک اہم تجویز آئین میں “سیکولرزم” کی جگہ “پلورلزم” شامل کرنے کی بھی تھی، جسے اکثر جماعتوں نے مسترد کیا، تاہم اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات کی حمایت کی گئی۔
بنگلہ دیش ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، جہاں ہندو آبادی دس فیصد سے بھی کم ہے۔