Premium Content

Add

پنجاب پولیس اور گڈ گورننس

Print Friendly, PDF & Email

      طاہر مقصود

مصنف:      صوبائی پولیس سے ایس ایس پی ریٹائرڈ ہیں۔

کسی بھی ملک میں قوانین پر عمل درآمد کرانا پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اور پولیس کی وردی کو قانون کی علامت کے طورپر دیکھا جاتا ہے اور لوگ پولیس کور ول ماڈل کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں۔

پنجاب پولیس کا موجودہ قانون جو کہ پولیس آرڈر2002ء کے نام سے جانا جاتا ہےکے نفاذکے بعد خیال کیاجاتاتھا کہ پولیس کے بارے میں عوام الناس کی رائے بہتر ہوگی اور پولیس بھی اپنے فرائض بہتر انداز میں سرانجام دے گی مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں مگر ایک وجہ صحیح کام کے لیے صحیح فرد کے فارمولے پر عمل نہ کرنا ہے۔

اس وقت لاہور ضلع کے علاوہ پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع میں جونیئر افسران(گریڈ 18) بطور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر تعینات ہیں۔حا لانکہ پولیس آرڈر کے مطابق ایس ایس پی رینک (گریڈ19) کا آفسر ڈسٹرکٹ پولیس آفسیر تعینات ہو سکتا ہے۔ اسی طرح گوجرانوالہ، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان ریجنوں میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس (گریڈ21) بطور ریجنل پولیس آفیسر تعینات ہونا چاہیے جبکہ اس وقت ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس رینک کے آفسران  بطورریجنل پولیس آفیسرز تعینات ہیں اور ان اضلاع میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس گریڈ20کا آفیسر بطورسٹی پولیس آفیسر تعینات ہونا چاہیے مگر یہاں بھی ایس ایس پی رینک  کےآفیسر بطور سٹی پولیس آفیسر کام کررہے ہیں۔

جونیئرا فسران کو تعینات کرنے کی وجہ اہل افسران کی کمی بتایا جاتاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افسران کی کمی کا ذمہ دار کون ہے؟

محکمہ خزانہ پنجاب نے سالانہ بجٹ میں حسب ضرورت مختلف رینک کے افسران کی تنخواہوں کے لیے رقم مختص کی ہوتی ہے۔ اب ان افسران کی کمی کو دور کرنے کے لیے نئی بھرتی کرنا یا محکمانہ ترقی دے کر خالی آ سامیوں کو پُر کرنا خالصتاً محکمہ اور محکمہ کے سربراہ کی ذمہ داری بنتی ہے۔

گورنمنٹ آف پنجاب رولز آف بزنس2011 کے مطابق پولیس ہوم ڈیپارٹمنٹ کا طفیلی/ ذیلی ادارہ ہے۔ اس طرح ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم (پنجاب) پولیس کا ایڈمنسٹریٹو سربراہ ہے۔ جبکہ انسپکٹر جنرل پولیس، صوبائی پولیس کا سربراہ ہے۔ اس طرح یہ دونوں افسران براہ راست ذمہ دار ہیں کہ محکمہ کے اندر افسران اور خاص طور پر سنیئر افسران کی کمی کو دور کرنے کے لیے حکومت وقت کو ضروری مشورہ دیں اور اگر اس سلسلہ میں کسی قانون سازی کی ضرورت ہوتو صوبائی اسمبلی کے ذریعہ قانون سازی بھی کی جانی چاہے۔ اس سلسلہ میں صوبائی مشیر داخلہ محترم عمر سرفراز چیمہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر اہل افسران کی کمی کی وجہ سے پائی جانے والی بدانتظامی کا خمیازہ سیاسی حکومت کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ اس وقت صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کے مابین پائی جانے والی کشمکش کے اثرات صوبائی افسران اور وفاقی افسران کے باہمی تعلقات پر بھی نظر آنے شروع ہوگئے ہیں۔

صوبائی افسران کا خیال ہے کہ تمام اہم پوسٹوں پر وفاقی افسران تعینات ہیں اور اُنہیں صوبائی افسران کے کیرئیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے وہ حکومت وقت کو صوبائی افسران کی بروقت ترقی کرکے خالی اسامیوں کو پُر کرنے کی تجویزنہ دیتے ہیں۔

ایرٹنگ پوسٹنگ کو عدالتیں پہلے ہی غیر قانونی قرارد ے چکی ہیں ۔ اہم عہدوں پرجونیئر افسران کی تعیناتی اقرباء  پروری ، غیر شفافیت اور لاقانونیت کو جنم دیتی ہے۔یہ تعیناتیاں پولیس افسران میں بد دلی کا باعث بنتی ہیں۔

اگر حالات ایسے ہی رہے تو پنجاب پولیس کے اندر ”گڈ گورننس“ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا  اور عوام الناس کے اندر پولیس کے متعلق پائی جانے والی نفرت میں کبھی کمی نہیں ہوسکے گی اور بدنامی آخرکار حکومت وقت کے لیے ہی ہوگی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1