اسرائیل کا ایران پر بڑا حملہ، جوہری تنصیبات اور عسکری اہداف کو نشانہ بنایا گیا

[post-views]
[post-views]

اسرائیل نے ایران کے خلاف ایک بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے، جس میں جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائل فیکٹریوں اور پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ “آپریشن رائزنگ لائن” کے نام سے شروع کیے گئے اس حملے کو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایران کے ممکنہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو روکنے کی ایک فیصلہ کن کارروائی قرار دیا ہے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق نطنز کی یورینیم افزودگی تنصیب سمیت مختلف علاقوں میں دھماکے ہوئے، جبکہ تہران میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی اور دو معروف جوہری سائنسدان فریدون عباسی اور محمد مهدی تہرانچی جاں بحق ہو گئے۔ رہائشی علاقوں پر حملوں میں متعدد بچوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔

ایران نے اسے “خونریز اور مجرمانہ جارحیت” قرار دیا ہے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ “اسرائیل نے اپنے ناپاک ہاتھ ایران کے خلاف دراز کیے ہیں اور اسے اس کا تلخ انجام بھگتنا ہو گا۔”

اسرائیل کے مطابق ایران نے ردعمل میں تقریباً 100 ڈرونز اسرائیلی حدود کی جانب بھیجے ہیں، جنہیں فضائی دفاعی نظام سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی اسرائیلی افواج نے بتایا کہ 200 جنگی طیاروں نے ایران کے اندر 100 سے زائد اہم اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال زمیر نے کہا کہ “یہ اسرائیل کی بقا کی جنگ ہے۔”

تل ابیب کا بین گوریون ایئرپورٹ بند کر دیا گیا ہے اور ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ اسرائیلی فوجی یونٹیں تمام سرحدوں پر تعینات کر دی گئی ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ ایران کی جانب سے میزائل اور ڈرون حملے کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں۔

امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ اس حملے میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیے جا سکتے” تاہم واشنگٹن اب بھی مذاکرات کے لیے پرامید ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے اسرائیل میں موجود اپنے تمام اہلکاروں کو فوری طور پر پناہ لینے کی ہدایت دی ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں فریقین سے “انتہائی ضبط و تحمل” کی اپیل کی ہے۔

اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے نے تصدیق کی ہے کہ نطنز تنصیب پر حملے کے بعد تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، اور ایران کے بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

پاکستان نے اسرائیلی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے “ناجائز اور بلا جواز جارحیت” قرار دیا ہے۔ اردن اور عراق نے اپنے فضائی حدود بند کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کو کسی بھی جنگ کا میدان نہیں بننے دیں گے۔

امریکہ اور ایران کے حکام کے درمیان اتوار کو عمان میں طے شدہ جوہری مذاکرات بدستور شیڈول پر قائم ہیں، حالانکہ موجودہ صورتحال سے ان پر منفی اثرات متوقع ہیں۔

خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث عالمی منڈیوں میں شدید ردعمل دیکھا گیا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور سرمایہ کاروں کی سونے اور دیگر محفوظ اثاثوں کی جانب رجحان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

مشرق وسطیٰ ایک نئے جنگی محاذ کے دہانے پر ہے، جہاں اسرائیل اور ایران کے مابین تصادم عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos