اسرائیل کا یمن پر حملہ، تین بندرگاہیں اور بجلی گھر نشانہ، حوثی حملوں کا جواب

[post-views]
[post-views]

اسرائیلی فوج نے پیر کی صبح یمن کے تین بندرگاہی علاقوں اور ایک بجلی گھر پر فضائی حملے کیے، جو تقریباً ایک ماہ بعد یمن پر پہلا حملہ ہے۔ فوج کے مطابق یہ کارروائیاں الحدیدہ، راس عیسیٰ، اور الصلیف بندرگاہوں کے ساتھ ساتھ راس قنطب کے بجلی گھر پر کی گئیں۔

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے حوثیوں کی جانب سے اسرائیل پر بار بار ہونے والے میزائل اور ڈرون حملوں کے ردعمل میں کیے گئے۔ حملوں کے کچھ گھنٹے بعد اسرائیل نے کہا کہ یمن سے دو مزید میزائل داغے گئے جنہیں روکنے کی کوشش کی گئی، تاہم نتائج کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی ایمبولینس سروس کے مطابق یمن سے داغے گئے میزائلوں کے نتیجے میں کوئی جانی یا مالی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔ اکتوبر 2023 میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی اسرائیل اور بحیرہ احمر میں عالمی تجارتی جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جنہیں وہ فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی قرار دیتے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے مزید بتایا کہ انہوں نے راس عیسیٰ بندرگاہ پر موجود گلیکسی لیڈر نامی جہاز پر بھی حملہ کیا جو 2023 میں حوثیوں نے قبضے میں لیا تھا۔ ان کے مطابق اس جہاز پر ایک ریڈار سسٹم نصب کیا گیا تھا جو بین الاقوامی سمندری جہازوں کی نگرانی کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔

حوثی ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی حملوں کے جواب میں مقامی ساختہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے متعدد میزائلوں سے دفاع کیا گیا۔

عینی شاہدین کے مطابق حملوں کے باعث الحدیدہ شہر کا مرکزی بجلی گھر تباہ ہو گیا اور شہر اندھیرے میں ڈوب گیا، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

حوثی میڈیا، ال مسیرہ ٹی وی نے بتایا کہ اسرائیل نے حملوں سے قبل تینوں بندرگاہی علاقوں میں شہریوں کو انخلا کا انتباہ دیا تھا۔ ان حملوں سے چند گھنٹے قبل ایک اور بحری جہاز پر حملہ ہوا جسے عملے نے چھوڑ دیا، امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کارروائی میں بھی حوثی ملوث ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل نے خطے میں ایران کے اتحادیوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے، تاہم یمن کے حوثی اور عراق میں دیگر گروہ اب بھی متحرک ہیں۔ حوثی لیڈر عبدالملک الحوثی نے اس تحریک کو ایک منظم فوج میں تبدیل کر دیا ہے، جس کے پاس اب ہزاروں جنگجو، ڈرون اور میزائل موجود ہیں۔ سعودی عرب اور مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار ایران فراہم کرتا ہے، لیکن ایران اس کی تردید کرتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos