امریکی حکومت سرکاری طور پر شٹ ڈاؤن کا شکار ہوگئی ہے کیونکہ سینیٹ آخری لمحات میں فنڈنگ بل منظور کرنے میں ناکام رہی۔ یہ پہلا شٹ ڈاؤن 2018 کے بعد پیش آیا ہے جس کے نتیجے میں کئی وفاقی خدمات عارضی طور پر معطل ہو گئی ہیں جبکہ ہزاروں سرکاری ملازمین کو بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ اگر شٹ ڈاؤن ہوا تو وفاقی ملازمین کی “ناقابلِ واپسی” بڑے پیمانے پر برطرفیاں ہوں گی۔ تاہم، سیاسی تعطل برقرار رہا۔ لازمی ادارے جیسے فوج اور سیکیورٹی اپنا کام جاری رکھیں گے، اگرچہ کئی ملازمین کو فوری تنخواہ نہیں ملے گی، جب کہ دیگر ملازمین کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
عالمی مالیاتی منڈیوں نے اس پیش رفت کو فی الحال عارضی رکاوٹ سمجھتے ہوئے زیادہ ردِعمل نہیں دکھایا۔ تاہم، اگر یہ بحران طویل ہوا تو امریکی معیشت اور عالمی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
کیپیٹل ہل پر الزامات کا تبادلہ بڑھ گیا ہے۔ ریپبلکن سینیٹر جان تھون نے کہا کہ ان کی جماعت “یرغمال” نہیں بنے گی، جبکہ ڈیموکریٹک رہنما چَک شومر نے ریپبلکنز پر “جھوٹ بولنے” اور ملک کو بلاوجہ بحران میں دھکیلنے کا الزام لگایا۔