بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے جبری گمشدگیوں اور 2024 کے عوامی احتجاج کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات پر 15 اعلیٰ فوجی افسران کو قید کی سزا سنا دی ہے۔
رپورٹس کے مطابق یہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ جبری گمشدگیوں کے مقدمات میں باضابطہ الزامات عائد کیے گئے ہیں، اور اتنی بڑی تعداد میں اعلیٰ فوجی حکام کو کسی شہری عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔
ان افسران میں پانچ جرنیل بھی شامل ہیں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں ایک خفیہ غیر قانونی حراستی مرکز قائم کر رکھا تھا، جہاں درجنوں افراد کو بغیر قانونی کارروائی کے قید رکھا گیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، جولائی اور اگست 2024 کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے سخت کریک ڈاؤن میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے عدالتی فیصلے کو انصاف اور احتساب کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا، اور کہا کہ یہ متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے امید کی کرن ہے۔
شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں راپیڈ ایکشن بٹالین فورسز پر کئی ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے گئے تھے، جن پر امریکا نے 2021 میں پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔
دوسری جانب وکیلِ دفاع سرور حسین نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ افسران بے قصور ہیں اور انہیں منصفانہ عدالتی کارروائی کے بعد بری کر دیا جائے گا۔