افغان طالبان کی ہٹ دھرمی اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں ان کا غیر سنجیدہ رویہ اب نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر علاقائی فریقین پر بھی واضح ہو چکا ہے۔ یہ رویہ مذاکراتی عمل کو غیر مؤثر بنا رہا ہے اور خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
باخبر سرکاری ذرائع کے مطابق دوحہ میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں اسلام آباد کے مؤقف اور مطالبات نہایت واضح، حقائق پر مبنی اور مسئلے کے دیرپا حل کے لیے ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے ثبوتوں اور زمینی حقائق کی بنیاد پر یہ مؤقف پیش کیا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دہشت گردی سے متعلق بنیادی مطالبات قومی سلامتی سے جڑے ہیں، اس لیے ان پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔ پاکستان نے واضح پیغام دیا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھانا طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے۔
مزید بتایا گیا ہے کہ ترکیہ مذاکرات میں ثالثی اور سہولت کاری کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ترک حکام کی کوشش ہے کہ طالبان وفد زمینی حقائق اور شواہد کو سمجھتے ہوئے تعاون کرے تاکہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں اور دونوں ممالک کے تعلقات اعتماد کی نئی بنیادوں پر استوار کیے جا سکیں۔












