پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ چار روز تک جاری رہنے والی بات چیت کے باوجود دونوں فریق قابلِ عمل حل پر متفق نہ ہوسکے۔
پاکستان کی جانب سے مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے پر قطر اور ترکیہ کا شکریہ ادا کیا گیا، جنہوں نے طالبان حکام کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد عناصر کو بطور دباؤ استعمال نہ کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔
ذرائع کے مطابق، طالبان نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد کے باوجود سرحد پار دہشت گردی روکنے کی کوئی ضمانت نہیں دی۔ اس موقع پر پاکستانی وفد نے واضح کیا کہ دہشت گردوں اور ان کے معاونین کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
مذاکرات میں پاکستان کا بنیادی مؤقف یہی رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔ پاکستانی وفد نے کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ افغان عوام کے امن اور خوشحالی کے لیے کوشاں رہا ہے اور اسی جذبے کے تحت مذاکرات کیے گئے۔
تاہم، افغان طالبان کی جانب سے الزام تراشی، تاخیر اور غیر سنجیدہ رویے کے باعث بات چیت کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکی۔ مذاکرات کے دوران طالبان موقف میں بار بار تبدیلی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں استنبول ڈائیلاگ بغیر کسی پیش رفت کے اختتام پذیر ہوگیا۔
 
								 
								










 

