اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ خیبر پختونخوا کو این ایف سی میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سرتاج عزیز کمیٹی نے صوبے کو 1000 ارب روپے دینے کی سفارش کی تھی، جو فوری طور پر فراہم کیے جائیں۔ این ایف سی میں دیگر صوبوں نے فاٹا کے انضمام پر حصہ دینے کی بات کی تھی، مگر خیبر پختونخوا میں فاٹا کے ضم ہونے کے بعد بھی صوبے کا شیئر صرف 19 فیصد رہا، اور گیس کی رائلٹی سمیت صوبائی وسائل کو روک دیا گیا۔
اسد قیصر نے کہا کہ افغان جنگ نے خیبر پختونخوا کی معیشت اور ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جنگ کی وجہ سے سرمایہ کاری کی شرح اور صنعتیں متاثر ہوئیں، اور وار آن ٹیرر کے بعد خودکش دھماکے اور ڈرون حملوں نے مزید نقصان پہنچایا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ماضی میں جب بھتے کی کالز آتی تھیں تو کون سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہوتا؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سے بہتر کوئی پاکستانی نہیں، پاکستان ہماری جان ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو، تمام ادارے مضبوط ہوں اور اپنے آئینی دائرہ کار میں کردار ادا کریں۔ انہوں نے پاک فوج کو اپنی فوج قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے بچے ہیں اور آئین میں ہر ادارے کا جو کردار مقرر ہے، وہی رہنا چاہیے۔
اسد قیصر نے یہ بھی کہا کہ ہم بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کو بین الاقوامی تجارت کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں اور جہاں بھی امن کی ضرورت ہو، پاکستان اپنا کردار ادا کرے، مگر کسی تنازع میں غیر ضروری مداخلت نہ کرے۔
اس موقع پر سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ حالیہ چار ماہ کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برآمدات میں کمی آئی ہے اور تجارتی خسارہ 37 فیصد بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کی کمی کی بنیادی وجہ ملک کے خراب ٹیکس اسٹرکچر اور ناقص گورننس ہے۔ انہوں نے جنرل سرفراز کے حوالے سے بتایا کہ اتنے ٹیکس میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا، اور گورننس کے نظام کی خرابی کی وجہ سے سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں پیدا ہو رہی۔












