پاکستان میں سیاست گڈ گورننس، سروس ڈیلیوری اور سیاسی حقیقت پسندی کی بنیادی ضرروتوں کے گرد نہیں گھومتی بلکہ مضحکہ خیز اور جعلی بیانیے کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاست جھوٹے دعوؤں ، وعدوں اور بیانیے کی پیداوار ہے۔ بیانیے کی خوبی سے قطع نظرسیاسی جماعتوں نے عوام کے درمیان اپنے بیانیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں خوب جگہ بنائی ہوئی ہے۔ ایک معاشرہ غیر عملی طور پر عقیدوں پر تیار ہوتا ہے ، تصوارت ہمیشہ سے گھومتی ہوئی داستانوں کو قبول کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/pakistan-main-jamhoriat-k-istehkam-k-liye-char-sala-parlemani/
جمہوریت کے ذریعے سے سب کا احتساب ہوتا ہے۔ عوام سیاسی جماعتوں کو ان کی حکمرانی اور سیاسی عمل کے ذریعے سے جوابدہ ٹھہراتے ہیں۔ میڈیا پولرائزڈ بیانیہ کے سخت عمل میں اصل وجہ ہے۔ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے لوگوں کو غیر معقول اور ناقابل تصور بنا دیا ہے۔ حکایات کا سب سے پریشان کن حصہ اخلاقیات، اقدار اور اخلاقیات کی قیمت پر مخالفین کو نیچا دکھانا ہے۔ اس افسوسناک صورتحال سے ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مخالفین کی بدنامی سیاسی جماعتوں کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہے تو پھر گڈ گورننس اور سیاسی استحکام کون دے گا؟ فرض کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت یہ ثابت کر سکتی ہے کہ اس کا مخالف بدعنوان، نالائق اور ناکارہ ہے، تو عوام کے لیے اس تصدیق کا کیا مطلب ہے؟
ان کی عام زندگی کیسے بہتر ہو گی؟ داستانوں کے آرکسٹرا نے معاشرے کو پولرائز کیا ہے۔ مناسب بیانیہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن حقیقت اور مقصد سے بچ کر کھوکھلے بیانیے کی تعمیر غیر سیاسی ہے۔ بیانیے، ترقی پسندانہ منصوبوں اور مستقبل کی راہیں محض چشم کشا ہیں۔ لوگوں کو موضوعی نہیں بلکہ معروضی ہونا چاہیے۔ کیا بیانیہ کی سیاست سیاسی درستگی اور خدمات کی فراہمی کے لوازمات کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے؟
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/subai-governance-ki-bunyadi-aini-zarurat/
سیاسی بیانیے عوام کی عقل سے براہ راست متناسب ہوتے ہیں۔ لوگ کیسے سیاستدانوں کو ان سے آگے بڑھنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ سماجی اور سیاسی حساسیت کا اگر سیاست دانوں کے ذریعے استحصال کیا جائے گا تو وہ مزید پولرائزیشن اور نفرت کا شکار ہو جائیں گے۔ آخر میں عوام سیاسی، مذہبی اور سماجی قیادت سے ایک سوال پوچھیں، کیا سود کی داستانیں عام لوگوں کو فائدہ پہنچائیں گی؟ بدقسمتی سے بیانیہ کی تعمیر کا زیادہ تر حصہ مفروضوں، تصورات اور تجارتی مفادات پر منحصر ہے۔ عوام کو بیانیے کی تہوں سے تفتیش کرنی چاہیے اور سیاست دانوں کو ٹھوس منصوبہ بندی اور منشور کے ساتھ آنے پر مجبور کرنا چاہیے۔
لہٰذا، ووٹنگ سے پہلے کسی بیانیے کے جذباتی رنگ میں بہہ جانے کے بجائے حکمرانی اور کارکردگی کا تجزیہ کرنا لازمی ہے۔ یاد رکھیں، حکایات صرف عام لوگوں کی حساسیت کو دلکش بناتی ہیں اور اس میں مادہ اور سچائی کی کمی ہوتی ہے۔