بیرسٹر رومان اعوان
عمران خان موجودہ دور میں پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ ریپبلک پالیسی کے سرویز کے مطابق بھی وہ پاکستان کے مقبول ترین راہنما ہیں۔ حالانکہ انکے سیاسی مخالفین بھی یہ اقرار کرتے چلے آئیں ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کو کنٹرول کرنا یا توڑنا مستقبل قریب میں ممکن نہیں لگ رہا ہے۔ اس لیے سیاسی دلیل کو آگے بڑھانے کے لیے عمران خان کی مقبولیت کے تمام اجزاء کو جانچنا ضروری ہے۔
عمران خان کی مقبولیت کی بنیاد تحریک انصاف کے سپورٹرز اور ووٹرز ہیں۔ تحریک انصاف ہی عمران خان کی مقبولیت کی بنیاد ہے، تاہم یہ الگ بحث ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان دراصل ایک ہی سیاسی قوت کا نام ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف بطور پارٹی اور لیڈر بھی پاکستان کے تمام لیڈرز اور سیاسی جماعتوں سے ذیادہ مقبول ہیں۔ اسکے علاؤہ اور بھی بہت سے عوامل ہیں جنکی وجہ سے عمران خان مقبولیت کی معراج پر ہیں۔ ہماری سیاسی دلیل یہ ہے کہ عمران خان مقبول ترین ہیں، تاہم آرٹیکل میں ہماری دلیل یہ نہیں ہے کہ کیا انکی مقبولیت سیاسی طور پر جائز ہے ؟
مزید برآں، انکی مقبولیت میں دوسرا فیکٹر پی ڈی ایم حکومت کی گورننس اور مہنگائی ہے جسکی وجہ سے عام عوام عمران خان کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں گورننس اور مہنگائی کا ووٹ سب سے ذیادہ ہے۔ تیسرا بنیادی فیکٹر” ہمدردی” کا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے دور میں بنیادی انسانی حقوق اور قانون و آئین کی خلاف ورزیاں جاری ہیں جسکی وجہ سے ہمدردی کا عنصر عمران خان کے ساتھ ہے۔
چوتھا بنیادی فیکٹر نواز، زرداری، اور پی ڈی ایم کے مخالف ووٹ کا عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ پاکستان میں جہاں پی ڈی ایم میں سیاسی جماعتوں کے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز ہیں ، وہاں پر انکے مخالفین بھی بھاری تعداد میں موجود ہیں جو کہ اب عمران خان کے ساتھ ہیں۔ پنجاب میں تو نواز مخالف ووٹ بہت زیادہ ہے۔ پانچواں بنیادی عنصر جمہوریت نواز ووٹرز کا ہے۔ پاکستان میں ووٹرز کا ایک بہت بڑا گروہ اداروں کے سیاسی کرادار کا ناقد ہے اور جمہوریت اور عوامی حق حاکمیت کا ماننے والا ہے۔ وقت بڑھنے کے ساتھ جمہوریت پسند ووٹرز کی تعداد کافی بڑھ رہی ہے۔ اس لیے وہ بھی موجودہ وقت میں عمران خان کے ساتھ کھڑا دیکھائی دے رہا ہے۔
عمران خان کی مقبولیت کو کنٹرول کرنے کے لیے ان پانچ عناصر کو توڑنا ہو گا جو کہ انتہائی مشکل کام ہے۔ اس کے علاؤہ عمران خان کے لئے بھی ان پانچ عناصر کو ساتھ رکھنا ضروری ہو گا۔ عمران خان جس عنصر کے نظریے سے پیچھے ہٹتے چلے جائیں گے، وہ گروہ عمران خان سے ہٹتا چلا جائے گا۔ تاہم موجودہ تناظر میں یہ تمام عناصر عمران خان کے گرد منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان عناصر کو عمران خان سے دور کرنا مشکل سے تقریباً ناممکن اس لیے بھی ہے کہ عمران خان حکومتی عہدہ داری فیکٹر سے آزاد ہیں اور پی ڈی ایم ہی اب عہدہ داری فیکٹر کا بوجھ برداشت کرے گی۔
سیاسی مقبولیت کا ایک سائیکل چھ ماہ سے ایک سال تک محیط ہوتا ہے۔ لہذا عمران خان کی مقبولیت اپنا سائیکل ہر صورت پورا کرے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقبولیت کا یہ سائیکل مزید سائیکلز تک پھیلے گا کہ نہیں؟ کیونکہ عمران خان عہدہ داری فیکٹر سے آزاد ہیں، لہذا مقبولیت کے ایک دورانیہ کا دوسرے سائیکلز میں بدلنا فطری لگ رہا ہے۔ اگر عمران خان پاکستان میں رہ کر اپنے موقف پر قائم رہے تو انکی مقبولیت توڑنا تقریباً ناممکن ہو گا۔
عمران خان کی مقبولیت اس وقت ٹوٹے گی جب وہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آئیں گے اور گورننس میں ناکام ہونگے، جیسا کہ انکے پچھلے اقتدار میں ہوا تھا۔ 2021 میں عمران خان اور تحریک انصاف اپنی مقبولیت کھو چکے تھے اور خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات اور پنجاب میں ضمنی انتخابات ہار رہے تھے۔ تاہم موجودہ تناظر میں اقتدار میں آئے بغیر عمران خان کی مقبولیت کا کم ہونا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ مقبولیت کے پانچ بنیادی عناصر عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔
تاہم یہ علیحدہ بحث ہے کہ کیا عمران خان کی مقبولیت انکو انتخابات جتوا پائے گی؟ پاکستانی تناظر میں انتخابات کی جیت میں مقبولیت کے ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے۔