اسلام آباد: سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی اے کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے“؟
سماعت کے آغاز پر عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے کل کا حکم نامہ پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ عامر میر کیس میں عدالتی احکامات پر عمل ہوا یا نہیں حکومت سے پوچھا جائے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس حکومت سے پوچھیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت سے پوچھیں۔
چیف جسٹس نے سابق ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر آرڈر بھی آپ کے خلاف پاس ہوگا۔ آپ کے موکل ایک وزیر ہیں؟
جہانگیر جدون نے کہا کہ جی وہ وزیر ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وہ بطور وزیر بے یارو مددگار ہیں؟
وکیل نے جواب دیا کہ جی وہ ہیں۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟
وکیل نے بتایا کہ سب کو پتہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسی باتیں مت کریں یہ کورٹ ہے اکھاڑہ نہیں۔
صحافیوں کی جانب سے متفرق درخواست دائر نہ ہونے پر چیف جسٹس نے اظہار تشویش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک تحریری طور پر ہمارے سامنے کچھ نہیں آئے گا ہم آرڈر کیسے جاری کریں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب سپریم کورٹ میں تین رکنی کمیٹی ہے وہ طے کرتی ہے کہ درخواست آنے کے بعد طے کرے گی۔
صحافی عقیل افضل نے بتایا کہ ہمیں ابھی تک فہرست ہی نہیں ملی کن صحافیوں کے خلاف کارروائی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا۔ کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔ ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھ رہے ہیں۔ اس قانون سے متعلق کیس براہ راست نشر ہوا تھا پورے ملک نے دیکھا۔ ہم توقع رکھتے تھے آج صحافی کوئی سی ایم فائل کرتے، ہمیں کوئی کاغذ تو دکھائیں ہم اس کیس میں آگے کیسے بڑھیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت میں صحافیوں پر تشدد کے خلاف دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کی ہے۔