چین امریکہ تعلقات میں نرمی: ٹرمپ اور شی کا مجوزہ باہمی دورہ

[post-views]
[post-views]

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اُنہوں نے چینی صدر شی جن پنگ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے، اور دونوں رہنماؤں کے درمیان باہمی دوروں کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے اس موقع پر چین کے دورے کی منصوبہ بندی کا عندیہ دیتے ہوئے صدر شی جن پنگ کو بھی امریکہ کے سرکاری دورے کی دعوت دی ہے، اگرچہ دونوں ممالک کی جانب سے اس حوالے سے کسی باضابطہ تصدیق کا اعلان نہیں کیا گیا۔

چینی سرکاری میڈیا کے مطابق، یہ گفتگو وائٹ ہاؤس کی درخواست پر ہوئی اور اس میں دونوں سربراہانِ مملکت نے باہمی امور، بالخصوص تجارت پر تبادلہ خیال کیا۔ ٹرمپ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ بات چیت ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی، اور اسے دونوں ممالک کے لیے “مثبت اور تعمیری” قرار دیا۔

وائٹ ہاؤس میں جرمن چانسلر فریڈرک مرٹز کے ساتھ مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ صدر شی جن پنگ نے اُنہیں چین کے دورے کی دعوت دی، جس کے جواب میں ٹرمپ نے بھی چینی صدر کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ بیجنگ جائیں گے اور توقع ظاہر کی کہ چینی صدر بھی اپنی شریک حیات کے ساتھ امریکہ کا دورہ کریں گے۔

تاہم، چین کے جاری کردہ سرکاری اعلامیے میں صرف صدر ٹرمپ کو دی گئی دعوت کا ذکر کیا گیا، جبکہ امریکہ کی طرف سے دی گئی جوابی دعوت کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے، جس سے دونوں فریقین کی ترجیحات اور بیانیے میں اختلافات کا اشارہ ملتا ہے۔

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ژنہوا‘ کے مطابق، صدر شی جن پنگ نے گفتگو کے دوران امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ چین کے خلاف کیے گئے “منفی اقدامات” واپس لے۔ شی جن پنگ نے یہ بھی کہا کہ چین ہمیشہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتا ہے، اور حال ہی میں جنیوا میں طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں دونوں ممالک کو مشترکہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ امریکہ اور چین ایک دوسرے پر جنیوا معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر باہمی تجارتی محصولات (ٹیرف) کو کم کرنے سے متعلق تھا۔ ٹرمپ نے اس معاہدے کو “ٹوٹل ری سیٹ” قرار دیا تھا، جس کا مقصد دوطرفہ تجارتی تعلقات میں استحکام لانا تھا۔

تاہم، فروری 2025 میں امریکہ نے کئی ممالک پر تجارتی محصولات عائد کیے، جن میں سب سے زیادہ شرح چین پر لاگو کی گئی۔ اس کے ردعمل میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر بھاری محصولات نافذ کر دیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی مزید شدت اختیار کر گئی۔

اس پس منظر میں، مئی 2025 میں جنیوا میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ایک نیا تجارتی معاہدہ طے پایا، جس کے تحت امریکہ نے چینی مصنوعات پر عائد ڈیوٹی کو 145 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد کر دیا، جبکہ چین نے امریکی مصنوعات پر عائد ڈیوٹی کو 125 فیصد سے گھٹا کر 10 فیصد کر دیا۔

موجودہ سفارتی روابط اور ممکنہ باہمی دورے، بظاہر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ کو کم کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ اگرچہ بیانات اور اعلانات میں فرق موجود ہے، لیکن باہمی گفتگو اور تجارتی معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے عزم کا اظہار اس امر کا غماز ہے کہ چین اور امریکہ مستقبل میں اقتصادی استحکام اور سیاسی مفاہمت کی جانب پیش رفت کر سکتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos