دنیا کے معروف تاجر اور ٹیکنالوجی کے ماہر ایلون مسک نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے سیاسی تعلقات ختم کرتے ہوئے ایک نئی سیاسی جماعت “امریکہ پارٹی” کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان اُن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کیا گیا، جس نے امریکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے اور دو بڑی جماعتوں پر مشتمل نظام کو براہِ راست چیلنج کر دیا ہے۔
اعلان سے ایک دن پہلے، ایلون مسک نے اپنے فالوورز سے سوال کیا تھا کہ کیا امریکہ کو نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے؟ اور اگلے ہی دن انہوں نے کہا: “آج امریکہ پارٹی قائم کی جا رہی ہے تاکہ آپ کو آپ کی آزادی واپس دی جا سکے۔” مسک کا کہنا تھا کہ دو کے مقابلے میں ایک کے تناسب سے عوام نے نئی پارٹی کے حق میں رائے دی۔
یہ اعلان اُس وقت سامنے آیا جب مسک اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات میں دراڑ گہری ہو گئی، خاص طور پر ٹرمپ کے نئے ٹیکس اور اخراجاتی بل کے بعد۔ ایلون مسک، جو کبھی ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور حکومتی کارکردگی کے سربراہ بھی رہے، اب اُس بل کو ملک کو دیوالیہ کرنے والا اقدام قرار دے رہے ہیں۔
مسک نے بل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ: “بائیڈن کے دور میں دو کھرب ڈالر کا خسارہ پہلے ہی پاگل پن تھا، لیکن اب اسے بڑھا کر ڈھائی کھرب کر دیا گیا ہے، یہ ملک کو تباہ کر دے گا۔”
انہوں نے اپنے سیاسی حکمتِ عملی کو قدیم یونانی جنرل ایپامینونداس کی جنگی حکمتِ عملی سے تشبیہ دی، جس نے اسپارٹا کی ناقابل شکست فوج کو شکست دی تھی۔ مسک نے کہا: “ہم یکطرفہ پارٹی سسٹم کو اسی طرح ختم کریں گے: ایک مقام پر انتہائی مرکوز قوت کے ذریعے۔”
اگرچہ ٹرمپ نے تاحال کوئی باضابطہ ردِ عمل نہیں دیا، لیکن ریپبلکن پارٹی کے حلقوں میں بے چینی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ پارٹی کو خدشہ ہے کہ یہ اندرونی ٹکراؤ 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ نے بالواسطہ طور پر دھمکی دی ہے کہ وہ ٹیس لا اور اسپیس ایکس کو دی جانے والی سرکاری سب سڈی واپس لے سکتے ہیں۔
یہ سیاسی تصادم صرف بیان بازی تک محدود نہیں رہا بلکہ مالیاتی منڈیوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ٹیس لا کے شیئرز، جو ٹرمپ کی دوبارہ انتخابی جیت کے بعد 488 ڈالر تک جا پہنچے تھے، اب گر کر 315.35 ڈالر پر بند ہو چکے ہیں، جو سرمایہ کاروں کی بے یقینی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس کے باوجود، ایلون مسک پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن قانون سازوں کے خلاف مہم چلائیں گے جنہوں نے ٹرمپ کے اخراجاتی بل کی حمایت کی، اور امریکہ کے سیاسی نظام کو ازسرِ نو ترتیب دیں گے۔
اگرچہ امریکی سیاست میں دو پارٹی نظام کو توڑنا انتہائی مشکل ہے، لیکن ایلون مسک کے پاس وہ وسائل، اثرورسوخ اور عوامی توجہ ہے جو کسی بھی روایتی سیاستدان کے پاس نہیں۔ ان کی خود مختاری اور دولت انہیں منفرد حیثیت فراہم کرتی ہے۔
“امریکہ پارٹی” کے قیام نے امریکی عوام میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے — کہ آیا وقت آ گیا ہے کہ دو جماعتی سیاست سے آگے بڑھا جائے، اور کیا امیر افراد کا سیاست میں دخل جمہوریت کو مضبوط کرے گا یا کمزور؟
یہ حقیقت کہ ایلون مسک اور ٹرمپ جیسے دو طاقتور شخصیات اب ایک دوسرے کے مدِ مقابل آ چکے ہیں، امریکی سیاست اور معیشت دونوں کے لیے ایک تاریخی موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی اختلاف نہیں، بلکہ طاقت، سرمایہ، اور نظریے کی جنگ ہے — جس کے اثرات آئندہ کئی برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔