ایران کے جوہری پروگرام پر یورپ کا سفارتی حل پر زور

[post-views]
[post-views]

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے آر ٹی ایل ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے یورپ کے لیے ایک وجودی خطرہ بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا، “ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ اس خطرے سے نمٹنے اور اسے محدود کرنے کا بہترین راستہ صرف اور صرف سفارتکاری ہے۔”

بارو کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانس ایران کے ساتھ براہ راست تصادم کے بجائے سفارتی راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کے مطابق، کسی بھی ممکنہ عسکری کارروائی سے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ یورپ کی سلامتی بھی داؤ پر لگ جائے گی۔

دوسری جانب جرمنی کے وزیر خارجہ جوہان ویڈےفُل نے بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ ایران کے ساتھ فوری مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ویڈےفُل کا کہنا تھا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر فوری سفارتی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں تاکہ تنازع کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔

یہ بیانات ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور جوہری تنصیبات کو ممکنہ ہدف بنائے جانے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یورپی طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایران اور دیگر فریقین دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئیں اور جوہری معاملے کا پرامن حل تلاش کیا جائے۔

ماضی میں یورپی ممالک 2015 کے جوہری معاہدے (جے سی پی او اے) کے اہم فریق رہے ہیں، جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر محدودیاں قبول کی تھیں۔ تاہم 2018 میں امریکہ کے اس معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد سے یہ معاہدہ غیر فعال ہو چکا ہے۔

فرانس اور جرمنی کی جانب سے سفارتکاری کی نئی اپیل اس بات کا مظہر ہے کہ یورپ اب بھی طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے۔ ان ممالک نے ایران اور اسرائیل دونوں سے تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

اگرچہ موجودہ حالات انتہائی نازک ہیں، تاہم یورپی قیادت کا یہ اقدام عالمی برادری کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازع کو روکنے کے لیے مشترکہ سفارتی کوششیں کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اور دیگر فریقین اس پیشکش پر مثبت ردعمل دیتے ہیں یا خطہ ایک نئے بحران کی جانب بڑھتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos