Premium Content

ہمارے کسان اور استحصالی قوتیں

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:      شفقت اللہ مشتاق

ہمارے کسان جب خون پسینہ ایک کردیتے ہیں تو ہمارے کھیت کھلیان سونا اگلنا شروع کردیتے ہیں اور پھر کسان بھی تھوک کے حساب سے سونا خرید کر گھروں میں رکھ کر اس کی حفاظت کے لئے پریشان رہنے لگتے ہیں۔ کبھی اس سونے کو بستروں کے اندر گھسا دیتے ہیں کبھی زمین میں دبا دیتے ہیں اور کبھی کبھی گروی رکھ کر اپنا گھر کا نظام چلاتے ہیں۔  پریشان تو کسان ویسے ہی رہتا ہے۔ بارش نہ آئے تو بھی پریشان ہے اور اگر کچھ ضرورت سے زیادہ آجائے تو زیادہ پریشان ہوجاتاہے۔ سود خور بنیا،جاگیردار، چوکیدار، پٹواری، تحصیلدار اور تھانیدار سب اس کے لئے خوف کی علامتیں ہیں۔ ہمت ہے اس کامے کی جو نہ سردی دیکھتا ہے نہ گرمی اور نہ دھوپ اور نہ سایہ مسلسل چل سو چل کے فلسفے پر گامزن ہے۔ یہ زن مرید نہیں ہے بلکہ وہ بھی اس کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔ صبح سویرے ریڑکا رڑک کر دودھ کو دیہی اور پھر دیہی کو مکھن میں بدل دیتی ہے۔ مویشیوں کو تن تنہا چارہ ڈال کر دودھ دینے پر مجبور کرتی ہے۔ صفائی ستھرائی سے لے کر اوپلے بنانے تک سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہے۔ اور پھر ٹوکرہ روٹیوں کاپکا کر مشترکہ خاندانی نظام کو دوام دینے کا پکا بندوبست کرتی ہے۔ گندلاں دا ساگ، مکھن اور مکئی کی روٹی ان سب چیزوں کو باندھ کر سر پر رکھتی ہے اور شوٹو شوٹ اپنے پیا کے تن کی بھوک مٹانے کے لئے کھیتوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اور پھر وہاں بھی زمین کے بنانے سنوارنے میں اپنے شریک حیات کے برابر کام کرتی ہے۔ یوں دونوں مل کر دھرتی کو سونا اگلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اور پھر ملیں زرعی اجناس کے استعمال سے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں۔ واہ رے ابن آدم اور حوا کی بیٹی تو نے دنیا میں آنے کا حق ادا کردیا۔

Read More: https://republicpolicy.com/gehri-soch-bechar-ki-zarurat/

تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت کے شعبے پر ہے اور زراعت کا انحصار کسان پر ہے۔  اس کسان نے تو ہمارے لئے بہت کچھ کیا ہے جبکہ ہم نے آج تک اس کو نعروں اور لاروں کے سوا کچھ نہیں دیا ہاں کچھ طفل تسلیاں ضرور دی ہیں اور اس کی سادگی بھی دیکھیں بہت جلدی باتوں میں آجاتا ہے۔ ایک بیانیہ ہے کہ اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان جاگیرداری نظام نے پہنچایا ہے۔ ماضی میں مختلف ادوار میں چند لوگوں کو مقتدر طبقوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے جاگیریں الاٹ کیں ۔وہ بیچارے ہاری کسانوں سے ان جاگیروں کو کاشت کرواتے رہے اور “جھونگا” ان کو دے کر باقی ساری فصل سمیٹ لیتے تھے یوں گویا واہے کوئی کھائے کوئی۔ کسانوں کے بچے جھگیوں میں شدید سردیوں میں ٹھٹھر رہے ہوتے تھے اور جاگیر داروں کے کتے مخمل کے بستروں میں نیند کے مزے لے رہے ہوتے تھے۔ تعلیم کے دروازے ان کے بچوں پر بند تھے تاکہ ان کی خدمت کے لئے افرادی قوت کم نہ ہو جائے اور ان ناخداوں کے حقوں میں پانی نہ سوکھ جائے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر ہاری کو مار کر دوسروں کو سبق سکھایا جاتا تھا۔ خوف ہی خوف۔ سائیں راضی تو سب راضی۔ مذہب کلچر اور ثقافت ساروں کے تانے بانے مالک کو طاقتور بنانے کے لئے بنے جاتے تھے۔  جمہوریت ایک اچھا نظام حکومت ہے جس میں ووٹ کا سب کو حق دیا جاتا ہے اور ووٹ صرف اپنے آقا اور مالک کو ہی دیا جاتا ہے تاکہ جاگیردار اور سرمایہ دار کے ہاتھ مزید مضبوط کئے جاسکیں۔ یہ کھیل تماشہ جس میں بڑا بڑا اور چھوٹا چھوٹا ہی رہتا ہے اور اوپر سے جمہور کی آواز بھی سر چڑھ کے بولتی ہے اور اگر کوئی ایسی حقیقی  آواز آنا شروع ہوجائے تو پانچ سات سروں کی قربانی ایسی آواز کو دبانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔ مختلف حیلوں بہانوں سے خلق خدا کو آگے پیچھے کیا جاتا ہے تاکہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ مبارک ہو 1958 میں زرعی اصلاحات متعارف ہوتی ہیں اور اس کا نتیجہ بھی بندر بانٹ۔ بندر نے درخت پر اپنی پوزیشن بحال رکھی اور اصلاح کا کوئی بھی پہلو اصلی شکل میں بحال نہ ہو سکا۔ پھر زنجیریں ٹوٹ گریں اور روٹی کپڑا اور مکان کا دور شروع ہوا اور زرعی اصلاحات کو دوبارہ 1974میں متعارف کروایا گیا اور پھر دوبارہ بیچارے کسانوں سے ہاتھ ہوگیا اس دوران لینڈ کمیشن کے مافیاز ساروں نے مل کر ہاتھ دکھایا اور پھر صرف کاغذوں میں نام بدلے قبضے بدستور۔کاغذات دستور العمل کے مطابق قبضہ کی بنیاد پر حتمی فیصلے ہوتے ہیں ہمارے ہاں تو ویسے بھی مرضی کے فیصلے ہوتے ہیں اور ایسے فیصلے اوپر سے آتے ہیں زمین کا اوپر اور ہے آسمان کا اوپر اور ہے۔ آسمان والا جب اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے تو باقی سارے اوپر والوں کو منہ چھپانے کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ پھر زمین بھی پھٹ سکتی ہے آسمان آگ بھی برسا سکتا ہے سمندر اور دریا جوش میں آکر دنیا والوں کے چھکے چھڑا دیتے ہیں۔ عالیشان عمارتیں کھنڈروں میں اور سرسبزوشاداب کھیت بنجر زمینوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں بادشاہ فقیر بن کر سدا لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سدا بادشاہی صرف ایک کی ہے اور اسی ایک کا حکم چلتا ہے۔ جب انسان اپنے معاملات خود طے نہیں کرتا تو فطرت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ یوں زمینیں نسل در نسل تقسیم ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور زرعی اصلاحات کا خدائی پروگرام نافذ العمل ہو جاتا ہے۔ لوح محفوظ کا حتمی کنٹرول انسان کے خالق اور مالک کے پاس ہے۔ اے انسان ہوش کے ناخن لے اور اپنے ہم جنسوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنے معاملات طے کر لے ورنہ یہ طے ہو چکا ہے کہ تیری ساری تدبیریں ایک دن خاک میں مل جائینگی اورتو قصہ پارینہ ہو جائیگا

Read More: https://republicpolicy.com/afradi-quwat-aur-information-technology/

وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانا ہر ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور یہ تقسیم ریاست کے سب شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ ہیو اور ہیوناٹ نے بڑی بڑی  معاشرتی برائیوں کو جنم دیا ہے اور اس وجہ سے معاشروں میں  بہت بڑے بگاڑ پیدا ہوئے ہیں۔ بلاشبہ بڑی بڑی تحریکوں نے اسی وجہ سے جنم لیا لیکن آج  پوری دنیا میں کہیں بھی ایک مثالی معاشرہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ مظلوموں کی بات کرنے والے خود ظالم بن گئے اور محض باتیں ہی باتیں رہ گئیں جمہور کی آواز ایوان اقتدار میں جانے سے پہلے ہی گم ہو گئی اور جمہور خود ایسی ساری صورتحال پر گم سم ہو گئی۔ کیا ایسی صورتحال ہمیشہ رہے گی یہ ایک قابل غور سوال ہے اور یہ سوال کسی دوسرے سے نہیں اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے توقعات وابستہ کرتے ہیں اور خود وہی کچھ کرتے ہیں جو دوسرے کررہے ہوں یہی ہم سب کا اہم مسئلہ ہے۔ ویسے ہم جاگیردارہیں،زمیندار ہیں،سرمایہ دار ہیں، تحصیلدار ہیں اور تھانیدار ہیں۔ یہ ہم من حیث القوم ہیں کاش ہم پہریدار بن جاتے اور اپنے حقوق پر اس وقت تک پہرہ دیتے جب تک استحصالی قوتوں کا خاتمہ نہ ہو جاتا اس کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ ہم خود بھی استحصالی قوتوں سے قطع تعلق کریں کیا یہ ممکن ہے۔ اس کام کے لئے مسلسل سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر پر میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ زراعت کو فروغ دینا ہماری معیشت کے استحکام کے لئے اشد ضروری ہے اور اس کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور یہ منصوبہ بندی زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ترتیب دینا ہوگی تب جا کر ہمارے مسائل وسائل میں بدلیں گے اور  معاشی میدان میں غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہو گا اور مایوسی اور پریشانیوں کے بادل ہمیشہ ہمیشہ کے لئےچھٹ جائینگے

Read More: https://republicpolicy.com/aye-ahad-kren/

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos