Premium Content

Add

عمران خان اپنے امریکہ مخالف بیانیے سے منحرف ہو رہے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

وقت تمام زخموں کو بھر دیتا ہے؛ خاص طور پر اُن زخموں کو جو خیالی ہوتے ہیں۔ عمران خان ذاتی طور پر  اب لچک دکھا رہے ہیں۔خاص طور پر وہ اپنے امریکہ مخالف بیانیے سے اب پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں۔ ، وہ اب ’معاف کرو اور بھول جاؤ‘ کے موڈ میں ہیں۔

وہ اب بائیڈن انتظامیہ کو اس نظر سے نہیں دیکھ رہے کہ اُنہوں نے ان کے سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر اُنہیں عہدے سے ہٹانے کی سازش کی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان  نے ایک حالیہ انٹرویو میں وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بڑے وثوق سے وضاحت دی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ  معلومات کے مطابق، یہ غیر ملکی حکام کی ملی بھگت نہیں تھی جنہوں نے انہیں نکالنے کی سازش کی تھی، بلکہ ان کے اپنے آرمی چیف تھے جنہوں نے واشنگٹن پر زور دیا تھا کہ خان کو جانے کی ضرورت ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ کے بیانیے میں تبدیلی یا چاہیں تو اسے یو ٹرن کہہ لیں ، ایسا لگتا ہے کہ حال ہی میں ریٹائرڈ جنرل قمر باجوہ کے ایک انٹرویو کی اشاعت سے ہوا ہے، جس میں جنرل نے مسٹر خان کو پاکستان کے مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

جنرل باجوہ نے اپنے بیان میں  کہا کہ اگر مسٹر خان اپنے عہدے پر برقرار رہتے  تو پاکستان تباہی کی طرف جاتا، اور بظاہر اسی وجہ سے اُنہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔ ان ریمارکس نے بظاہر مسٹر خان کو اتنا غصہ دلایا ہے کہ وہ اپنی بندوقوں کا رخ سابق آرمی چیف کی طرف کر دیں۔

اتوار کے روز  خطاب میں، عمران خان نے سوال کیا کہ معیشت کو بنیاد بنا کر جو اُنہیں عہدے ہٹایا گیا اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ عہدے سے ہٹانے کے بعد مزید حالات خراب ہو گئے ہیں۔

انہوں نے جنرل باجوہ پر گورننس کے زیادہ تر معاملات میں وسیع اختیارات استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا۔  اگرچہ عمران خان  کے نئے الزامات مایوس کن ہیں ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے الزامات میں سچائی ہے۔

مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں نے ریٹائرڈ جنرل پر سیاسی مداخلت اور اپنی اپنی حکومتیں گرانے کا الزام لگایا ہے۔ اگرچہ اس کے اثر و رسوخ کی حد کبھی بھی عام نہیں ہوسکتی ہے، لیکن جنرل کے اپنے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ان معاملات میں گہری دلچسپی لی ہے جو اس کے دائرہ کار سے باہر تھے۔

اس کی غیر نصابی سرگرمیوں کے نتائج تباہ کن تھے: ملک تیزی سے پولرائزڈ ہوتا گیا جب وہ ایک طرف اور پھر دوسری طرف کھیلتا رہا۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ذاتی فائدے کے لیے تھا، چاہے وہ اصرار کریں کہ وہ عوامی مفاد میں کام کر رہے تھے۔

جنرل باجوہ   کے بیان نے مسلح افواج کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔باجوہ کے دور میں ریاست اور اس کے اداروں کو جس حد تک نقصان پہنچا، اس کے پیش نظر کسی نہ کسی طرح کا حساب ضرور ہونا چاہیے۔باجوہ کے نظریے کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے، اور اس کے معروف اور غیر معروف جہتوں کا گہرائی سے آڈٹ کیا جانا چاہیے اور عوام کی نظروں میں لانا چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1