پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاست میں ایک اہم موڑ اس وقت سامنے آیا جب بانی پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے لیے آنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کو اس فیصلے سے آگاہ کیا۔ اس اقدام کو موجودہ سیاسی تناظر میں غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ یہ براہِ راست پارلیمانی اپوزیشن کے مستقبل کے لائحہ عمل کو متعین کرے گا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری عمر ایوب کے پاس تھی، تاہم انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپوزیشن لیڈر کی نشست خالی قرار دیتے ہوئے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا۔ یہی نہیں بلکہ پارلیمان میں اپوزیشن لیڈر کے دونوں عہدے ختم کر دیے گئے اور سات ارکان کی قائمہ کمیٹیوں کی رکنیت بھی منسوخ کر دی گئی، جو پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا۔
عمر ایوب نے اپنی برطرفی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اس لیے ہدف بنایا گیا کیونکہ وہ کرپشن سے متعلق حقائق عوام کے سامنے لا رہے تھے۔ ان کے مطابق، طاقتور حلقے ان کی سرگرمیوں اور مؤقف کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں تھے، اسی وجہ سے انہیں عہدے سے الگ کیا گیا۔
موجودہ صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی اور پارلیمانی دونوں سطحوں پر دباؤ کا شکار ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزد کرنا اس امر کی علامت ہے کہ پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اپنی مؤثر موجودگی برقرار رکھنے اور ایک نئی حکمتِ عملی اپنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ پیش رفت مستقبل کی سیاسی صف بندیوں اور اپوزیشن کے کردار پر دور رس اثرات مرتب کر سکتی ہے۔