اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمے کی سماعت چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران جسٹس طارق محمود جہانگیری روسٹرم پر آئے، جس پر عدالت نے وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت کی۔
جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ انہیں جمعرات کو نوٹس ملا، حالانکہ قانون کے مطابق مکمل ریکارڈ فراہم ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کیس کا پورا ریکارڈ طلب کیا اور چیف جسٹس کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا، کیونکہ چیف جسٹس کے خلاف ان کی اپیل زیرِ التوا ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ڈویژن بینچ کو کووارنٹو سننے کا اختیار نہیں، اور انہیں سنے بغیر جوڈیشل ورک سے روک کر ان کا آئینی حق متاثر کیا گیا، جبکہ ڈیڑھ سال پرانی درخواست پر صرف تین دن کا نوٹس دیا گیا۔
جسٹس جہانگیری نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلفاً کہا کہ ان کی ڈگری اصلی ہے، چیف جسٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، کیس کسی اور بینچ کو منتقل کرنے اور جواب کے لیے مہلت مانگی، اور خبردار کیا کہ معاملہ بڑھا تو پنڈورہ باکس کھل سکتا ہے۔
عدالت نے کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار کو مکمل ریکارڈ سمیت طلب کیا اور ہدایت دی کہ تمام دستاویزات جسٹس جہانگیری کو فراہم کی جائیں۔ درخواست گزار نے روزانہ سماعت کی استدعا کی، جبکہ جسٹس جہانگیری نے مزید وقت مانگا۔
صدر اسلام آباد بار نے قانونی طریقہ کار کی پابندی پر زور دیا، جس کے بعد عدالت نے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
جسٹس جہانگیری نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی عدالتی تاریخ میں ایسا طرزِ عمل نہیں ملتا، ڈگری کے معاملے پر سندھ ہائیکورٹ کا حکمِ امتناع موجود ہے اور کراچی یونیورسٹی نے ڈگری کو جعلی قرار نہیں دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جہانگیری کو وہی انصاف ملے گا جو سب کو ملتا ہے۔ جواباً جسٹس جہانگیری نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں کسی جج کو اعتراض والے کیس میں بغیر سنے کام سے روکنے کی مثال نہیں ملتی۔
آخر میں جسٹس جہانگیری نے مؤقف اپنایا کہ یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اس لیے ہائیکورٹ میں اس کیس کی سماعت نہیں ہو سکتی۔












