جمعیت علمائے اسلام (ف) نے خیبر پختونخوا کے نومنتخب وزیر اعلیٰ محمد سہیل آفریدی کے انتخاب کے عمل کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے رکن صوبائی اسمبلی لطف الرحمان نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک مفصل آئینی درخواست دائر کی ہے، جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ ابھی تک باضابطہ طور پر منظور نہیں ہوا۔ ان کے استعفے کی منظوری کے بغیر نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب عمل میں لایا گیا، جو آئین کے آرٹیکل 130 کی روح کے منافی ہے۔ درخواست گزار کے مطابق، گورنر یا اسپیکر کی جانب سے علی امین گنڈاپور کے استعفے کی منظوری کے باضابطہ نوٹیفکیشن کے بغیر صوبائی اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب نہیں ہو سکتا تھا۔
درخواست میں عدالت سے یہ استدعا کی گئی ہے کہ محمد سہیل آفریدی کے بطور وزیر اعلیٰ انتخاب کے عمل کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ یہ انتخاب نہ صرف پارلیمانی روایات کے خلاف ہے بلکہ آئینی تقاضوں کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ درخواست گزار نے مؤقف اپنایا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے جمہوری اصولوں کو نقصان پہنچتا ہے اور آئین کی بالادستی متاثر ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس اسپیکر بابر سلیم سواتی کی زیرِ صدارت منعقد ہوا، جس میں محمد سہیل آفریدی کو 90 ووٹوں کی اکثریت سے نیا وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ تاہم، اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی عمل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اجلاس کے دوران احتجاج کیا اور بعد ازاں ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
محمد سہیل آفریدی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے، اور وہ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے بعد پارٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار نامزد کیے گئے تھے۔ جے یو آئی (ف) کے مطابق، انتخابی عمل میں شفافیت اور آئینی تقاضوں کو نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ معاملہ عدالت کے دائرہ کار میں لایا گیا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق، اگر عدالت یہ قرار دیتی ہے کہ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ تاحال منظور نہیں ہوا، تو سہیل آفریدی کا انتخاب ازخود غیر مؤثر ہو جائے گا۔ تاہم، اگر گورنر سیکریٹریٹ یا اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے استعفے کی منظوری کا نوٹیفکیشن پیش کیا گیا تو نئی حکومت کا انتخاب برقرار رہ سکتا ہے۔
اس مقدمے نے صوبائی سیاسی منظرنامے میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے، اور یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عدالت کی کارروائی صوبائی حکومت کے استحکام پر براہ راست اثر ڈال سکتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر عدالت نے جے یو آئی (ف) کے مؤقف کو درست قرار دیا تو صوبے میں دوبارہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا عمل شروع کرنا پڑے گا، جس سے آئندہ کئی ہفتوں تک سیاسی غیر یقینی کی فضا برقرار رہنے کا امکان ہے۔