اسلام آباد: لاپتہ افراد کے مقدمات سے متعلق ایک درجن کے قریب درخواستوں کی سماعت کے دوران، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت کو اس بات پر شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ یہ معاملہ کئی سالوں سے التوا کا شکار ہے۔
یہ مشاہدہ اس وقت سامنے آیا جب عدالت نے صحافی مدثر نارو کی گمشدگی سے متعلق معاملہ اٹھایا، جو شمالی علاقوں کے دورے کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔ ان کی اہلیہ نے تقریباً پانچ سال قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا، لیکن درمیانی عرصے میں ان کا بھی انتقال ہو گیا۔
مدثرنارو کا بیٹا عام طور پر کیس کی کارروائی میں شرکت کے لیے عدالت آتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کے چیف لاء آفیسر سے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے ساتھ معاملہ اٹھائے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
چیف جسٹس فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کےواقعات پاکستان کے امیج کوخراب کر رہے ہیں اور ملک کی بدنامی ہو رہی ہے ۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سےدیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں مدد طلب کی۔
مدثر نارو کے کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ یہ معاملہ پانچ سال سے التوا کا شکار ہے۔
جسٹس اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ ایک سابق وزیراعظم نے جبری گمشدگیوں پر اس عدالت سے خطاب کیا تھا، لیکن انہوں نے اس عمل کو روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل بیرسٹر منور اقبال دگل نے کہا کہ حکومت اس معاملے پر سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
جسٹس فاروق نے ریمارکس دیئے کہ حکومت سنجیدہ ہے تو کوئی نتیجہ ضرور دکھائے۔
عدالت نے اے جی پی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔