روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی مداخلت نے عالمی سطح پر سفارتی توازن کو متاثر کیا ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق، شمالی کوریا اب روس کے لیے ایران یا چین سے بھی زیادہ اہم اتحادی کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر اور “کرائسس گروپ” سے وابستہ اولیگ اگناتوو کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے نہ صرف روس کو بڑی مقدار میں گولہ بارود اور بھاری ہتھیار فراہم کیے ہیں بلکہ شمالی کوریائی فوجی روسی افواج کے ساتھ یوکرین کے محاذوں پر بھی موجود ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، جہاں چین نے روس کے ساتھ دفاعی اتحاد کو زیادہ تر سفارتی و اقتصادی دائرے تک محدود رکھا ہے، اور ایران ڈرونز اور محدود دفاعی ساز و سامان فراہم کر رہا ہے، وہیں شمالی کوریا نے براہِ راست فوجی مدد فراہم کر کے روس کا فعال جنگی شراکت دار بننے کا ثبوت دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور شمالی کوریا کے تعلقات اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف ہتھیاروں کا تبادلہ ہو رہا ہے بلکہ مشترکہ فوجی مفادات بھی ابھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
روس کے لیے شمالی کوریا کی یہ سرگرم حمایت موجودہ حالات میں اس کے لیے ایک بڑی تزویراتی تقویت سمجھی جا رہی ہے۔