بلوچستان میں ایندھن کا بحران سنگین شکل اختیار کر گیا ہے، جو ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایرانی سرحد سے پیٹرول اور ڈیزل کی فراہمی معطل ہونے کے باعث صوبے کے متعدد علاقوں میں پیٹرول پمپس بند ہو چکے ہیں، جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تربت، گوادر، پنجگور، چاغی، واشک اور مشکیل جیسے سرحدی اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جہاں نہ صرف ایرانی ایندھن کی سپلائی رکی ہوئی ہے بلکہ ایران سے آنے والی اشیائے خوردونوش کی ترسیل بھی بند ہو گئی ہے۔ اندازے کے مطابق مکران، رخشان اور چاغی کے راستے ایرانی تیل کی غیر قانونی ترسیل بند ہونے کے سبب 60 سے 70 فیصد پیٹرول پمپس بند ہو چکے ہیں۔
ضلع انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے غیر قانونی ایرانی تیل فروخت کرنے والے پمپس بند کیے گئے تھے، جس سے کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں عوامی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر قانونی کاروبار سے وابستہ افراد نے بلیک مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمت 280 سے 300 روپے فی لیٹر تک بڑھا دی، جبکہ سرکاری نرخ 254 روپے مقرر ہیں۔
کراچی سے کوئٹہ تک سڑکوں پر رکاوٹوں کے باعث قانونی پیٹرول کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے، جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
تاہم بلوچستان حکومت نے ایندھن کی قلت کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ کوئٹہ میں بیشتر رجسٹرڈ پیٹرول پمپس معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ ایرانی ایندھن فروخت کرنے والے پمپس حفاظتی خطرات کا باعث ہیں۔ صرف گزشتہ ماہ کوئٹہ میں ایندھن سے متعلق 28 حادثات رپورٹ ہوئے، جن میں ائیرپورٹ روڈ اور ہزار گنجی کے واقعات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ افواہیں ان عناصر کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں جو ایرانی تیل پر عائد پابندی کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔ ترجمان نے واضح کیا کہ غیر قانونی ایندھن کی فروخت یا ذخیرہ اندوزی میں ملوث پمپس کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایندھن اور اشیائے خورونوش کے لیے ایران پر انحصار نے ایک بار پھر صوبے کے توانائی تحفظ اور معاشی ڈھانچے کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا ہے، جو موجودہ جغرافیائی کشیدگی کے دوران شدید خطرے سے دوچار ہے۔