پاک فوج کا دوٹوک مؤقف: طالبان کی سہولت کاری، سرحدی خطرات اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا جواب

[post-views]
[post-views]

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرحدی نگرانی اور ریاستی اداروں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 4 نومبر 2025 سے اب تک ملک بھر میں چار ہزار سے زیادہ معلومات آپریشن ہو چکے ہیں۔ رواں سال خیبر پختونخوا میں 12 ہزار 857 اور بلوچستان میں 53 ہزار 309 کارروائیاں کی گئیں جن میں مجموعی طور پر 1,873 عسکریت پسند مارے گئے، جن میں 136 افغان بھی شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد دنیا کے مشکل ترین خطوں میں شمار ہوتی ہے، جہاں فاصلہ، جغرافیہ اور منقسم گاؤں آمد و رفت کے کنٹرول کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ ان کے مطابق بارڈر فینس تب مؤثر ہوتی ہے جب اسے مستقل نگرانی، فائر کور اور جدید ٹیکنالوجی حاصل ہو، جو بھاری وسائل کا تقاضا کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی اصولوں کے مطابق سرحدی نظم ہمیشہ دو ممالک مل کر قائم کرتے ہیں، لیکن افغانستان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔ طالبان انتظامیہ دہشت گردوں کو تحفظ، گزرگاہ اور سہولت دیتی ہے، اور افغانستان میں مسلح گروہوں کے مراکز، اسلحہ، تربیت اور مالی معاونت کھلے عام موجود ہیں۔ پاکستان یہ شواہد طالبان حکام کے سامنے رکھ چکا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے طالبان کے دعوے — کہ پاکستان مخالف شدت پسند “مہمان” ہیں — کو غیر منطقی قرار دیا۔ اگر وہ پاکستانی ہیں تو انہیں واپس کیا جائے، وہ کیسے مہمان ہو سکتے ہیں جو ہتھیاروں کے ساتھ پاکستان آتے ہیں؟ ان کے مطابق طالبان حکومت ایک کمزور ڈھانچے کی حامل انتظامیہ ہے جو خطے کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مطالبہ سادہ ہے: طالبان دوحہ معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ اگر اس پر کسی تیسرے ملک کی نگرانی ضروری ہو تو پاکستان کو اعتراض نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2024 اور 2025 میں اب تک 13 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں، جب کہ صرف نومبر میں 2 لاکھ 40 ہزار افراد وطن لوٹے۔ پاکستان کا افغان عوام سے کوئی اختلاف نہیں، مسئلہ طالبان حکومت کی پالیسیوں اور دہشت گردوں کو دی گئی سہولت کاری ہے۔ خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے۔

بھارت کے حالیہ بیانات کو انہوں نے “خود فریبی” قرار دیا اور کہا کہ بھارتی قیادت جھوٹے بیانیے سے اپنی عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ پاکستان کسی بھی بیرونی جارحیت کا سخت جواب دے گا۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک چلنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پاکستان کے خلاف زہریلا بیانیہ بنا رہے ہیں۔ ریاستی ادارے، حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی کا حل نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد میں ہے۔ بلوچستان میں اس پر مؤثر پیش رفت ہو چکی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں اس کی مزید ضرورت ہے۔

آخر میں انہوں نے بتایا کہ ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ دہشت گرد گروہوں کی بڑی مالی قوت تھی۔ کریک ڈاؤن سے روزانہ 20.5 ملین لیٹر کی غیر قانونی ترسیل کم ہو کر 2.7 ملین لیٹر رہ گئی ہے، اور بلوچستان کے 27 اضلاع کو باقاعدہ پولیس کے تحت لا کر قانون نافذ کرنے کی قوت مضبوط کی جا رہی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos