پنجاب بھر کے 13 اضلاع میں ڈپٹی ڈائریکٹرز کالجز کی خلاف قانون، خلاف ضابطہ اور خلاف آئین تقرریاں اور تعیناتیاں
تفصیل کے مطابق پنجاب کابینہ کے وزیروں اور مشیروں کے وارے نیارے ہو گئے جنہوں نے اپنے چہیتے پروفیسرز کو بغیر انٹرویو اور میرٹ کے پنجاب بھر میں تعینات کروایا. قانون اور ضابطے وزیراعلی ہاؤس کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئے۔
جلد بازی میں کی گئی ان تقرریوں کا مقصد شاید پنجاب بھر کے گورنمنٹ کالجزمیں کلاس فور کی بھرتیوں پر اثر انداز ہونا تھا جن کے انٹرویو 22 نومبر کو ہونا تھے۔ جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹرز کالجز کو 18 نومبر کو غیر قانونی احکامات کے تحت پنجاب کے 15 اضلاع میں تعینات کر دیا گیا ان میں دو اضلاع وہاڑی اور شیخوپورہ بھی شامل ہیں جہاں پر موجود انتہائی ایماندار آفیسرز کو بلا جواز اور قبل از وقت ہٹا کر من پسند پروفیسرز کو زبردستی تعینات کر دیا گیا۔
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بھی سی ایم ہاؤس کے سامنے بے بس اور لاچار نظر آیا اور اس نے ان بلا ضابطہ اور خلاف قانون تعیناتیوں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی۔
پنجاب بھر کے متاثرین پروفیسرز نےان غیر قانونی تقرریوں پر شدید رد عمل کا مظاہرہ کیااور احتجاج کیا. متاثرین پروفیسرز میں سے پروفیسر خالد محمود اعوان نے لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ میں رٹ دائر کر دی اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اس غیر قانونی اور غیر ضابطہ احکامات کو اعلی عدلیہ میں چیلنج کر دیا۔
لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ کی رٹ نمبر 8840 / 22 کے تحت جسٹس صفدر سلیم شاہد کا دوران سماعت خلاف ضابطہ اور خلاف قانون تقریوں پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
اعلی عدالت نے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت چھ فریقین کو نو ٹسسز جاری کر دیئے اور پیرا وائز جواب طلب کیا ہے. اس کے علاوہ اعلی عدلیہ کا انصاف اور قانون کےتحت رٹ نمٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔
درخواست گزار پروفیسر خالد محمود اعوان کا اعلی عدلیہ سے انصاف اور میرٹ کے تحت تقرریوں کا مطالبہ کیا اور ساتھ میں اعلی عدلیہ کے پہلے آڈر کو سراہا۔