جمعرات کی رات روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیف پر ایک بڑے پیمانے پر ڈرون اور میزائل حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم دو افراد جاں بحق اور سولہ زخمی ہو گئے۔ یوکرینی صدر وولودیمیر کے مطابق حملے میں 18 میزائل اور 400 سے زائد ڈرون استعمال کیے گئے جن کا ہدف شہری انفراسٹرکچر تھا۔
شہریوں نے تین گھنٹے تک خوفناک صورتحال کا سامنا کیا جب آسمان میں مسلسل ڈرونز اور میزائلوں کی گھن گرج سنائی دیتی رہی۔ مقامی حکام نے بتایا کہ گرنے والے ڈرونز کے ملبے سے رہائشی عمارتوں، گاڑیوں، گوداموں اور صحت کے مراکز میں آگ بھڑک اٹھی۔ متعدد اضلاع میں شدید نقصان ہوا، خصوصاً پودیلزکی کے علاقے میں ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر تقریباً تباہ ہو گیا۔
یوکرین کے وزیر داخلہ نے ایک 68 سالہ خاتون اور 22 سالہ پولیس افسر کی ہلاکت کی تصدیق کی۔ کیف کے میئر ویتالی نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ پناہ گاہوں میں رہیں اور دھوئیں کی شدت کے باعث کھڑکیاں بند رکھیں۔
یوکرینی فضائیہ نے خبردار کیا ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ڈرون حملوں کا خطرہ موجود ہے، تاہم کیف کے علاوہ دیگر شہروں میں ہلاکتوں کی اطلاعات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب چند روز قبل یوکرین پر روس کا اب تک کا سب سے بڑا فضائی حملہ کیا گیا تھا، جس میں 700 سے زائد ڈرونز اور کئی کروز میزائل شامل تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مانیٹرنگ مشن کے مطابق جون میں تین سال کے دوران شہری ہلاکتوں کی سب سے زیادہ تعداد ریکارڈ کی گئی، جس میں 232 افراد جاں بحق اور 1,300 سے زائد زخمی ہوئے۔ اب تک 16 یوکرینی علاقوں میں شہری نقصان کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جو روسی فضائی حملوں کی وسعت کو ظاہر کرتی ہیں۔
صدر زی لنسکی نے اس حملے کو دہشت گردی میں شدت قرار دیتے ہوئے فوری بین الاقوامی اقدامات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا، “پابندیاں مزید سخت کی جائیں، اور ہتھیاروں کی تیاری میں تیزی لائی جائے۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ فضائی دفاع کے لیے انٹرسیپٹر ڈرونز کی فراہمی کے سلسلے میں عالمی شراکت داروں سے رابطہ کریں گے۔
ادھر عالمی سفارتی کوششیں جمود کا شکار ہیں۔ جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ “سفارتی راستے ختم ہو چکے ہیں” جبکہ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بھی اسی مؤقف کی توثیق کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “وہ عوام میں نرم لہجہ اختیار کرتے ہیں، مگر ان کے الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں۔”
واشنگٹن میں امریکی کانگریس ایک دو جماعتی پابندیوں کے بل پر کام کر رہی ہے، جو ان ممالک کو نشانہ بنائے گا جو روسی تیل اور گیس کی درآمد جاری رکھے ہوئے ہیں، خصوصاً چین اور بھارت۔ یورپی یونین بھی نئی پابندیوں کے ایک مرحلے کی تیاری کر رہی ہے۔
اب عالمی توجہ روم میں ہونے والی دو روزہ یوکرین ریکوری کانفرنس کی جانب مرکوز ہو گئی ہے، جس میں 77 ممالک کے نمائندگان شرکت کر رہے ہیں۔ روسی ڈرون حملوں کی شدت کے پیش نظر یوکرین کی فضائی حفاظت کانفرنس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوگی۔
جمعرات کی شب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، ملائیشیا میں ہونے والے ایک اجلاس کے موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کریں گے، تاہم کسی بڑے پیش رفت کی توقعات بہت کم ہیں۔
روس کا یوکرین پر مکمل حملہ، جو فروری 2022 میں شروع ہوا، اب بھی جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ شہری ہلاکتوں میں اضافہ اور عالمی سفارتی تقسیم کے تناظر میں یہ جنگ ایک اور تباہ کن مرحلے میں داخل ہوتی نظر آ رہی ہے۔